• معاملات >> بیع و تجارت

    سوال نمبر: 50669

    عنوان: اقالے کے بارے میں

    سوال: زید اور بکر نے اپنے اپنے گھروں کا مجلس میں تبادلہ کیا، ابھی قبضے کی نوبت نہیں آئی کہ زید پشیمان ہوا اور اقالہ کی پیش کش کی، بکر کے انکار پر اس نے یہ حیلہ کیا کہ بکر کو کہا کہ اپنا گھر اور دو لاکھ روپے لے لو۔ سوال یہ ہے کہ ابھی تک کسی نے نئے گھر پر قبضہ نہیں کیا،کیا اس کو بیع جدید کہہ سکتے ہیں؟ اور بیع جدید کی صورت میں بکر کے لیے دو لاکھ وصول کرنا جائز ہے؟

    جواب نمبر: 50669

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 318-259/D=3/1435-U اقالہ کی حقیقت یہ ہے کہ وہ متعاقدین کے حق میں فسخ ہے اور تیسرے آدمی کے حق میں بیع جدید، اقالہ ثمنِ اول پر ہی ہوتا ہے، اگر کسی نے پہلی قیمت پر کمی یا زیادتی کی شرط لگائی تو یہ شرط لغو ہے دوسرے پر ثمنِ اول ہی واجب ہوگا، خواہ یہ اقالہ بیع پر قبضہ سے پہلے ہو یا قبضہ کے بعد ”ہی فسخ في حق المتعاقدین بیعٌ في حق ثالث وتصح بمثل الثمن الأول وشرط الأکثر أو الأقل بلا تعیّب وجنس آخر لغوٌ ولزمہ الثمن الأول“ البحر الرائق: ۶/۱۶۷، زکریا بکڈپو۔ ”قال أبوحنیفة علیہ الرحمة: الإقالة فسخٌ في حق العاقدین بیعٌ جدید في حق ثالث سواءٌ کان قبل القبض أو بعدہ“ بدائع الصنائع: ۴/۵۹۳، دار الکتاب دیوبند۔ ”إذا تقایلا ولم یسمّیا الثمن الأول أو سمّیا زیادةً علی الثمن الأول․․․ فالإقالة علی الثمن الأول في قول أبي حنیفة رحمہ اللہ، تسمیة الزیادة․․․ باطلةٌ سواء کانت الإقالة قبل القبض أو بعدہ والمبیع منقولٌ أوغیر منقولٍ“ بدائع الصنائع: ۴/۵۹۴، لہٰذا سوال میں مذکور اقالہ کی صورت زید اور بکر کے حق میں بیع جدید نہیں ہے اور بکر کے لیے دو لاکھ روپئے وصول کرنا بھی جائز نہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند