معاملات >> بیع و تجارت
سوال نمبر: 44018
جواب نمبر: 4401801-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 268-252/N=3/1434 (۱) اگر مضاربت کا معاملہ شرعی اصول وضوابط کے مطابق ہو تو باجماع امت بلاشبہ جائز ودرست ہے کذا في إعلاء السنن (۱۶: ۴۲، ۴۳، ط: إدارة القرآن والعلوم الإسلامیة کراتشی باکستان) (۲) مضاربت کی اہم اور بنیادی تفصیلات کے لیے بہشتی زیور (۵:۳۶-۳۸ مطبوعہ کتب خانہ اختری سہارن پور) کا مطالعہ کیا جائے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
کیا
عورت جمعہ کی اذان کے بعد خرید و فروخت کرسکتی ہے، کیوں کہ اس پر جمعہ کی نماز نہیں
ہے جس کی وہ تیاری کرے گی؟ میری دکان ہے میں اذان کے بعد مسجد چلا جاتا ہوں میری
بیگم رقم وصولتی ہیں نقاب لگا کر ہوتی ہے۔ ایک قیمت والی شو روم ہے اس لیے زیادہ
گفتگو بھی نہیں کرنی پڑتی ہے ۔کیا اسے کرنا غلط ہے اگر ہاں تو کس درجے کی؟
ادھار قسطوں پر موبائل فروخت کرنا
5023 مناظرعرض
یہ ہے کہ ایک تاجر چاہتا ہے کہ وہ اپنے گاہکوں کی تعداد اور پنے سامان کی بکری میں
اضافہ کرے، اس کے لیے اس نے یہ ترتیب سوچی کہ جو شخص اس کی دکان سے ایک متعین رقم
سے زیادہ خرچ کرے گا اس کو ایک Entry
from ملے گا اور شرکت کرنے والوں میں سے کسی ایک کو انعام دیا جائے گا۔
اس میں مندرجہ ذیل چیزوں کی رعایت کی جائے گی:
(۱) چیزوں کی قیمت اپنی اصلی
قیمت پر رہے گی۔ اس میں اضافہ نہ ہوگا۔
(۲) شرکت کرنے والوں میں سے
کسی سے مبیع کی قیمت کے علاوہ کوئی زائد رقم نہیں لی جائے گی۔
(۳) یہ Competition اس وقت جاری ہوگا جب یہاں ایک Carnivalچل رہا ہوگا۔ اس وقت کا انتخاب اس
وجہ سے ہے کہ لوگ عموماً اس وقت زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ صاحب دکان کی نیت کا س موقع
سے کوئی تعلق نہیں، صرف گاہکوں کی بڑھوتری کی خاطر یہ چلانا چاہتے ہیں۔
۱- مندرجہ
بالا شرائط کے ساتھ کیا اس کو جار ی کرنے میں کوئی گنجائش ہے؟
۲- اگڑ
شرط اول مفقود ہو، یعنی چیزوں کی قیمتوں کو زیادہ کردی جائیں تو کیا یہ کمپٹیشن
جائز ہوگا؟
میری اطلاع کے مطابق علمائے کرام
کہتے ہیں کہ کاروبار میں منافع کی کوئی متعین آخری حد نہیں ہے۔ اس بات کا مشاہدہ کیا
جارہا ہے کہ اس فتوی کی وجہ سے تقریباً تمام کاروباری لوگ چاہے وہ خوردہ فروش ہوں،
تھوک فروش ہوں، یا صانع ہوں یا پیشہ ور ہو جیسے وکیل، ڈاکٹر وغیرہ وہ لوگ بہت زیادہ
اور حد سے زیادہ منافع لینے کے عادی ہوچکے ہیں۔مزید برآں، اب ہم قیامت کی ایک
علامت دیکھ رہے ہیں کہ ادنی اور حقیر کاروبار کے مالک جیسے کہ قصاب، نائی وغیرہ
مسلم معاشرہ کے بہت مالدار لوگ ہوچکے ہیں۔اس لیے میں یہ پوچھنا چاہتاہوں کہ کیا یہ
بات درست ہے کہ شریعت میں کاروبار میں منافع کمانے کی کوئی آخری حد متعین نہیں ہے؟
کیا شریعت نے اس بارے میں کوئی متعین اخلاقی حد نہیں متعین کی ہے؟ یا کیا معزز
علمائے کرام مسلم معاشرہ کو صحیح اسلامی کاروبار کی تصویر دکھانے کے ذمہ دار نہیں
ہیں اس پر قابو پانے کے لیے؟
ہمارے علاقہ میں ایک دکان دار ادھار اور نقد سامان کی فروخت کے الگ ریٹ لگاتا ہے، کیا ایسا کرنا درست ہے؟
کیا شوہر اپنی بیوی کو تجارت و کاروبار کے متعلق معلومات دے سکتا ہے یا نہیں؟