• معاملات >> بیع و تجارت

    سوال نمبر: 36003

    عنوان: فلیٹ بكنگ

    سوال: میرے والد نے جنوری 2010 میں ایک فلیٹ بک کروایا تھا جس کی قیمت 68لاکھ طے کی گء تھی۔ ہم نے 15لاکھ اڈوانس دیا تھا اور ساتھ ہی ہر مہینے 2لاکھ کی قسط دینی تھی لیکن اگلے ایک سال میں ہم صرف 8.5لاکھ دے سکے۔ اور ابھی نومبر 2011 تک ہم کل 23.5لاکھ دے سکے ہیں۔ جبکہ قبضہ جنوری2011 تک ملنا تھا لیکن کیونکہ ہم نے پوری رقم ادانہ کی تو ہمیں قبضہ بھی نہیں ملا۔اب مسئلہ یہ ہوا کہ مالک نے اس نئے گھر پر مزید پونے 5 لاکھ لگا کر اسے 69لاکھ کا بیچ دیا۔اب ٹوٹل نقصان چار لاکھ کا ہوا ہے۔ اب مالک نے ہمیں کہا کہ یا تو ہم پورا چار لاکھ کا نقصان اٹھائیں یا پھر وہ ایک لاکھ اور ہم تین لاکھ کا نقصان اٹھائیں۔اب آپ بتائیں، آیا نقصان کا باٹنا جائز ہے یا پھر سارا نقصان کسی ایک جانب پر آنا چاہئے ؟ اور پھرکس جانب پورا نقصان جائے گا؟ ہماری طرف یا مالک کی طرف ؟

    جواب نمبر: 36003

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(د): 147=22-2/1433 (۱) اگر فلیٹ تیار اور معاملہ کرتے وقت متعین تھا اور پوری قیمت کی ادائیگی پر فلیٹ پر قبضہ دینا طے تھا پھر قیمت کی ادائیگی میعاد کے اندر نہ ہوسکی تو بائع کو فلیٹ فروخت کرنے کا اختیار مل گیا فإن اشتری شخص شیئا علی أنہ أي المشتري إن لم ینقد ثمنہ إلی ثلاثة أیام فلا بیع صح، وقال أیضًا ولا یخرج مبیع عن ملک البائع مع خیارہ․ اب فروخت کرنے کی صورت میں نقصان کا ذمہ دار تنہا مالک ہوگا، اور آپ لوگوں سے لی ہوئی پوری رقم واپس کرنا اس پر لازم ہے اور اگر ادائیگی قیمت پر فلیٹ کی حوالگی کی شرط نہیں لگائی مگر آپ لوگوں کے کہنے یا مرضی سے فروخت کیا ہے تو نقصان کے پورے ذمہ دار آپ لوگ ہوں گے، طے شدہ رقم میں سے جس قدر کی ادائیگی باقی ہے وہ آپ لوگ ادا کردیں اور فروختگی سے حاصل شدہ رقم لے لیں۔ (۲) اور اگر فلیٹ تیار نہیں تھا یا متعین نہیں تھا تو بھی فروخت کرنے کی صورت میں نقصان پورا مالک کو برداشت کرنا ہوگا اور آپ لوگوں کو ویسا ہی دوسرا فلیٹ دے کر ما بقیہ رقم آپ لوگوں سے وہ لے لے یا معاملہ فسخ کرکے پوری رقم (جو آپ لوگوں سے لی ہے) واپس کردے (نقصان آپ لوگوں کی طرف ڈالنا درست نہیں) نوٹ: البتہ اگر ادائیگی رقم میں تاخیر کی وجہ سے وہ فروخت کرنے پر مجبور ہوا پھر اس میں اسے نقصان لاحق ہوا تو نقصان کی کچھ ذمہ داری بطور مصالحت آپ لوگ لے لیں تو ایسا کرنا جائز ہے۔ فإن اشترى شخص شيئا على أنه أي المشتري إن لم ينقد ثمنه إلي ثلاثة أيام فلا بيع صح وقال أيضا ولا يخرج مبيع عن ملك البائع مع خياره.


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند