معاملات >> بیع و تجارت
سوال نمبر: 35770
جواب نمبر: 3577031-Aug-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(م): 42=42-1/1433 دوسرے ملکوں کی کرنسی خریدنا اور مہنگا ہونے پر فروخت کردینا جائز ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
فلیٹ کی خرید وفروخت کے بعد اڑچن پیش آنے پر اقالہ کی ایک صورت کا حکم
9687 مناظرکیا فرماتی هین علمای کرام اور مفتیان عظام اس مسلی کی باری مین ؟ هماری علاقی مین حکومت نی ملازمین او اسکی علاوه دوسری لوکون کوکهر کیلی پلات دیی هین اوران ملازمین نی ۶۰۰۰۰ افغانی بینک کووصول کیی هین اب ان مین سی بعض ایسی هین که نقشی کی اعتبار سی اسکی جکه معلوم هین او بعض ایسی هین که صرف حکومت نی اسکو کهرکی رسید دی هین بینک کوپیسی وصول کیی هین نقشه معلوم هین پر جکه معلوم نهین . اب وه پلات جسکانقشه اورجکه معلوم هین اسکی رسید کی خرید او فروخت شرعی لحاظ سی کیسا هی؟ اور وه پلات جس کا صرف نقشه معلوم هین که اس خطی مین اپکاپلات هوکا جکه معین نهین حکومت جب بهی جکه معین کری یا مسترد کری کچه پته نهین اسکی رسید کی خرید اور فروخت کیسا هی ؟ برای مهربانی یه کاروبار هماری علاقی مین بهت تیزی کیساته چل رهاهی اور بهت ساری لوک اسمین مصروف هین جواب مین اکر تعجیل کیاجایی اپ حضرات کی بری مهربانی هوکی .
1703 مناظرایک قدرتی قیمتی پتھر ہے جس پر قدرتی طور پر لفظ اللہ عربی میں کندہ ہے۔ اس پتھر کا مالک اس کو ایک ثالث کے ذریعہ سے فروخت کرنا چاہتا ہے۔ کیا اس پتھر کے قیمتی ہونے کے ناطے اس کے فروخت کا ذمہ لینا اور پیسہ کمانا مالک کے لیے اور ایجنٹ کا کمیشن حلال ہے یا حرام؟
2151 مناظرکیا شریعت میں غیر ملکی زر تبادلہ حلال ہے یا حرام ہے؟
1404 مناظرجنید جمشیدپاکستانی
سنگر تھے اور ماشاء اللہ اب ہدایت پاکر دین کی طرف راغب ہیں۔ اور تبلیغی جماعت کا
حصہ ہیں۔ وہ ساتھ ساتھ اپنا کپڑوں کا کاروبار بھی کرتے ہیں۔ اور ان کے تمام کپڑے
اتنے مہنگے ہوتے ہیں کہ صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ زائد منافع خوری ہے۔ حالانکہ آگے وہی
کپڑے خود بنوائیں تو آدھی قیمت میں بن جائیں۔ تو کیا یہ جائز ہے اسلام میں کہ اپنی
مرضی کے مطابق منافع لیا جائے؟ میرے خیال میں زائد منافع خوری غلط ہے۔
میرا
سوال یہ ہے کہ گاہک دکان دا رسے کچھ مدت کے ادھار پر کپڑا خریدنا چاہتاہے تو کیا
اس کپڑے کو بیچ کر کچھ رقم حاصل کرلے اور ان پیسوں سے اپنی ضرورت پوری کرلے؟
دکاندار گاہک کو کہتاہے کہ یہ کپڑا پانچ سو روپیہ کا ہے (جب کہ وہ کپڑا بازار میں
عام طور پر ڈھائی سو روپیہ میں دستیاب ہے) لیکن سودا ادھار ہونے کی وجہ سے دکان دار
اس کپڑے کو پانچ سو روپیہ میں فروخت کردیتا ہے ۔اس کے بعد وہی گاہک اسی دکاندار کو
کہتا ہے کہ اب یہ کپڑا دو سو پچاس روپیہ میں خرید لو او ردکاندار اس کپڑے کو خرید
لیتا ہے اور ڈھائی سو روپیہ گاہک کو ادا کردیتا ہے۔ کیا یہ خریدو فروخت صحیح ہے یا
یہ سود ہے؟ اور اگرصحیح نہیں ہے تو کس طرح ؟ (۲)بازار میں موٹر سائیکل
پچاس ہزار میں دستیاب ہے۔ گاہک دکاندار سے کہتاہے کہ میں یہ رقم یک مشت ادا نہیں
کرسکتا، میں اس کی طے شدہ قیمت ایک ساتھ میں ادا کروں گا۔ دکاندار وہی موٹر سائیکل
جو پچاس ہزار روپیہ میں ہے گاہک کو ایک لاکھ روپیہ میں فروخت کردیتا ہے اور پچیس
ہزارروپیہ بطور ایڈوانس لے کر بقیہ رقم کی پندرہ قسط (پندرہ ہزار روپیہ ماہانہ)
بنا دیتا ہے۔ اس کے علاوہ دکاندار شرط رکھتا ہے کہ اگر ایک سے زیادہ قسط مقررہ وقت
پر جمع نہ کرائی گئی تو وہ موٹر سائیکل اور جمع کرائی گئی تمام رقم (ایڈوانس او
رقسطوں سمیت) ضبط کرلے گا۔ ..........