معاملات >> بیع و تجارت
سوال نمبر: 32696
جواب نمبر: 32696
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(د): محض نقشے کی بنیاد پر منزل کی تعمیر سے پہلے ”بیع استصناع“ کے حکم میں ہوکر فلیٹ کی خریداری جائز ہے۔ بأن الاستصناع جائز في کل ما جری التعامل فیہ کالقلنسوة والخف والأواني المتخذة من الصفر والنحاس وما أشبہ ذلک استحسانًا (التفاوی التاتار خانیہ: ۹/۴۰۰) البتہ مشتری کا کمپنی سے کرایہ لینا جائز نہیں ہے، کیوں کہ کرایہ کسی چیز کا عوض ہوا کرتا ہے اور یہاں کرایے کی مالیت کے مقابلے میں کوئی عوض نہیں ہے؛ لہٰذا فلیٹ کا کرایہ لینا جائز نہیں ہے: الإجارة اسم للأجرة، وہي کراء الأجیر، وقد أعطاہ إذا أعطاہ أجرتہ، وفي الہدایة: الإجارة عقد علی المنافع بعوض، وفي الزاد: یرید بالعوض عوضًا ہو مال (الفتاوی التاتارخانیة: ۳/۱۵) دوسرے یہ کہ اس میں ایک معاملہ دوسرے معاملے سے خلط ملط ہوجاتا ہے جب کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک معاملے کو دوسرے معاملے میں ملحق کرنے سے منع فرمایا ہے: نہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن بیعتین في بیعة (الموطا لمالک، رقم الحدیث: ۲۴۴۴) وأیضًا نہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن صفقتین في صفقة واحدة․ (مسند أحمد، رقم الحدیث: ۳۵۹۵) نیز واضح رہے کہ فلیٹ پر مکمل قبضے سے پہلے اس کو کسی دوسرے شخص کو بیچنا بھی جائز نہیں ہے، کیونکہ ابھی مبیع پر قبضہ نہیں ہوا ہے اور بیع قبل القبض جائز نہیں ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند