• معاملات >> بیع و تجارت

    سوال نمبر: 30338

    عنوان: (۱) شریعت میں منافع کی حد کیا ہے؟جسے تاجر فروخت ہونے والے سامان میں کماسکے؟(خریدہوئے سامان کی اصلی قیمت کے حساب سے )(۲) کچھ سرکاری ملازمین حکومت کے فنڈ (حج اسکیم ) پر حج کرنے جاتے ہیں، جب کہ وہ خود حج کے اخراجات برداشت کرسکتے ہیں۔ براہ کرم، اس بارے میں وضاحت فرمائیں۔ 

    سوال: (۱) شریعت میں منافع کی حد کیا ہے؟جسے تاجر فروخت ہونے والے سامان میں کماسکے؟(خریدہوئے سامان کی اصلی قیمت کے حساب سے )(۲) کچھ سرکاری ملازمین حکومت کے فنڈ (حج اسکیم ) پر حج کرنے جاتے ہیں، جب کہ وہ خود حج کے اخراجات برداشت کرسکتے ہیں۔ براہ کرم، اس بارے میں وضاحت فرمائیں۔ 

    جواب نمبر: 30338

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ل):319=231-3/1432

    (۱) فروخت ہونے والے سامان پر نفع اتنی ہی مقدار میں لینا چاہیے جتنی مقدار نفع لینے کا بازار میں رواج ہو، اس کی تحدید فقہاء نے یہ کی ہے کہ وہ اندازہ کرنے والے کے اندازہ میں آجائے یعنی کئی اندازہ کرنے والے اگر اندازہ سے اس چیز کی قیمت بتائیں تو کسی ایک کی بات اس کے مطابق ہوجائے، اس سے زیادہ نفع لینا خلافِ مروت ہے: إذا ثبت الغبن الفاحش وہو ما لا یدخل تحت تقویم المقومین وثبت التغریر یکون للبائع فسخ البیع (فتاویٰ مہدیہ: ۳/۹)
    (۲) صاحب استطاعت شخص کو حج اپنی رقم سے کرنا چاہیے کیونکہ حج میں رقم خرچ کرنے کے فضائل بے شمار ہیں، دوسروں کی رقم سے حج کرنے سے (خواہ حکومت کے فنڈ سے ہو) حج ادا ہوجاتا ہے اور حج کا ثواب بھی ملتا ہے اگر فرائض وواجبات کی رعایت کرتے ہوئے حج کیا جائے، البتہ حج میں رقم خرچ کرنے کے جو فضائل ہیں اس سے آدمی محروم رہتا ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند