معاملات >> بیع و تجارت
سوال نمبر: 174784
جواب نمبر: 174784
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 264-233/D=04/1441
جن چیزوں کا استعمال جائز و ناجائز دونوں کاموں میں ہوتاہے اس کی بیع باالاتفاق جائز ہے اور اگر معلوم ہو جائے کہ مشتری ناجائز ہی کام میں استعمال کرے گا، تب بھی امام صاحب رحمہ اللہ کے نزدیک جائز ہے؛ لیکن کراہت سے خالی نہیں ہے؛ البتہ کراہت کا حکم مطلق نہیں؛ بلکہ اگر معصیت اس شی کے عین کے ساتھ متعلق ہو یعنی: بغیر کسی تغیر و تبدیلی کے ناجائز کام میں استعمال ہو سکتی ہو تو مکروہ تحریمی ہے جو کہ باعث گناہ ہے۔ فی خلاصة الفتاوی: بخلاف الطنبور وغیرہ إذا استاجر حیث یطیب لہ الأجر؛ لأنہ یصلح بمصالح آخر بأن یجعلہ وعاء إلا أنہ یأثم في الإعانة علی المعصیة ۔ (۳/۱۵۰، ط: أشرفیة دیوبند) لیکن اگر معصیت اس کے عین کے ساتھ متعلق نہ ہو؛ بلکہ تغیر و تبدیلی کے بعد ہی اسے ناجائز کام میں استعمال کیا جاسکتا ہو تو اس کا گناہ تو فاعل مختار پر ہوگا پھر بھی یہ بیع کراہت تنزیہی سے خالی نہیں ہے۔ وجاز بیع عصیر عنب ممن یعلم أنہ یتّخذہ خمرا ؛ لأنّ المعصیة لاتقوم بعینہ بل بعد تغیّرہ ۔ (الدر المختار: ۹/۵۶۰، ط: زکریا دیوبند)
سوال میں مذکور کتابوں میں جو فتوی لکھا ہوا ہے وہ دوسری صورت سے متعلق ہے اور جو چیز مکروہ تنزیہی ہو اس کو جائز کہہ سکتے ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند