• معاملات >> بیع و تجارت

    سوال نمبر: 158215

    عنوان: بیعانہ کی رقم دے کر کسی دوسرے کو مکان فروخت کرنا

    سوال: کیا فرماتے ہیں علمائکرام ومفتیان عظام ، مسئلہ ذیل کے بارے میں !! زید نے ایک مکان کو خریدنے کے ارادہ سے ایک لاکھ روپیہ بطور بیعانہ بائع عمرو کو ادا کیا، عمرو نے زید کو کل رقم کی ادائیگی کے لئے جو کہ بارہ لاکھ ہے تین ماہ کی مہلت دی ہے ، اب کیا زید کے لئے جائز ہے کہ وہ کل رقم کی ادائیگی کئے بغیر یہ مکان کسی دوسرے شخص مثلا خالد کو فروخت کر دے ، اور اس کے بعد حاصل شدہ رقم سے عمرو کو ادا کرے ۔ واضح رہے کہ عمرو کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ آیا زید رقم کی ادائیگی مکان فروخت کرنے کے بعد کررا ہے یا بغیر مکان فروخت کئے ادا کر دیتا ہے ۔ یہاں پر چند امور وضاحت طلب ہیں: 1) کیا ایک لاکھ بیعانہ دینے سے زید اس مکان کا مالک ہو گیا ؟ 2) اگر مالک ہو گیا تو کیا قبضہ بھی مانا جائے گا ، قبضہ کے تحقیق کے لئے کیا ضروری شرائط ہیں ؟ 3) اگر بائع عمرو اس بات پر راضی ہے کہ زید اس مکان کو تیسرے شخص خالد کو بیچ دے ، تو کیا اس اجازت کو قبضہ مان کر ،زید کا خالد کو بیچنا شرعا درست ہوگا ؟ 4) بیعانہ کی رقم کی شرعا کیا حیثیت ہے ؟ کیا اسے عربون کے درجے کا مانا جا سکتا ہے ؟

    جواب نمبر: 158215

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:429-42T/sd=5/1439

    (۱) محض بیعانہ دینے سے زید مکان کا مالک نہیں ہوگا؛ البتہ اگر بائع (عمرو) بیعانہ کی رقم لے کر زید کو عملی طور پر اپنی زمین کا مالک بنا دے ، تو زید کی ملکیت ثابت ہوجائے گی۔

    (۲) زمین جائداد پر قبضہ کے تحقق کے لیے تخلیہ ضروری ہے ، یعنی : مالک زمین اپنی مملوکہ زمین سے دست بردار ہوکر اُس کو مشتری کے سپرد کر دے اس طور پر کہ بائع کا کوئی حق اُس سے وابستہ نہ ہو اور مشتری کے لیے اُس میں کسی طرح کا تصرف کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو ۔

    (۳) جی ہاں ! اگر بائع عمرو زید کو اپنا مملوکہ مکان حوالے کردے اور پوری رقم اداء کرنے سے پہلے اُس کو آگے فروخت کرنے کی اجازت دیدے ، تو زید کے لیے مکان خالد کو بیچنا جائز ہوگا۔

    (۴) بیع عربون میں یہ شرط ہوتی ہے کہ معاملہ فسخ ہونے کی صورت میں بائع بیعانہ کو ضبط کر لے گا ،بیعانہ کی رقم لیتے وقت اگر یہ شرط لگائی جائے گی، تو یہ بیع عربون کہلائے گی جو ناجائز ہے۔ تفسیر التسلیم والقبض، فالتسلیم والقبض عندنا ہو التخلیة والتخلی، وہو أن یخلی البائع بین المبیع وبین المشتری برفع الحائل بینہما علی وجہ یتمکن المشتری من التصرف فیہ، فیجعل البائع مسلمًا للمبیع والمشتری قابضًا لہ … لا خلاف بین أصحابنا فی أن أصل القبض یحصل بالتخلیة فی سائر الأموال۔ (بدائع الصنائع، کتاب البیوع / تفسیر التسلیم والقبض ۴/۴۹۸زکریا)ولا یشترط القبض بالبراجم؛ لأن معنی القبض ہو التمکین، والتخلی، وارتفاع الموانع عرفًا، وعادةً حقیقةً۔ (بدائع الصنائع ۴/۳۴۲زکریا)للمشتری أن یبیع المبیع من آخر قبل قبضہ إن کان عقاراً لا یخشی ہلاکہ، وکما یجوز بیع العقار قبل قبضہ یجوز أیضاً التصرف فیہ بالرہن والہبة، غیر أن التصرفات المذکورة وإن کانت جائزة إلا أنہا لا تکون لازمة ونافذة إلا بدفع الثمن للبائع أو إجازتہ لہا۔ (شرح المجلة ۱/۱۲۸رقم: ۲۵۳)إن المشتری إذا قبض المبیع بإذن البائع صار مالکاً لہ۔ (شرح المجلة ۱/۱۲۸) ونہی عن بیع العربان أن یقدم إلیہ شیء من الثمن، فإن اشتری حوسب من الثمن، وإلا فہو لہ مجانًا، وفیہ معنی المیسر”۔ (حجة اللّٰہ البالغة / بیوع فیہا معنی المیسر ۲/۲۸۸ )


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند