معاملات >> بیع و تجارت
سوال نمبر: 158027
جواب نمبر: 158027
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:436-372/N=5/1439
(۱): آن لائن ٹریڈنگ کی جو صورت سوال میں ذکر کی گئی ہے، یہ در حقیقت خرید وفروخت کی شکل نہیں ہے؛ بلکہ یہ واضح طور پر جوے کی شکل ہے ؛ کیوں کہ جواب صحیح ہونے کی صورت میں پیسہ بڑھ کر واپس ملتا ہے اور بہ صورت دیگر اصل پیسہ بھی واپس نہیں ملتا۔ اور جوا شریعت میں قطعی طور پر حرام وناجائز ہے اور اس میں جو زائد پیسے ملتے ہیں، وہ بھی حرام ہیں؛ اس لیے سوال میں مذکور آن لائن ٹریڈنگ کی شکل اختیار کرنا جائز نہیں ہے ، مسلمانوں کے لیے اس سے بچنا واجب وضروری ہے۔
قال اللّٰہ تعالی:وأحل اللہ البیع وحرم الربا الآیة (البقرة: ۲۷۵)،یٰأیھا الذین آمنوا إنما الخمر والمیسر والأنصاب والأزلام رجس من عمل الشیطن فاجتنبوہ لعلکم تفلحون( المائدة، ۹۰)،عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربوا وموٴکلہ وکاتبہ وشاہدیہ، وقال: ہم سواء (الصحیح لمسلم، ۲: ۷۲، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)،وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:إن اللہ حرم علی أمتي الخمر والمیسر(المسند للإمام أحمد،۲: ۳۵۱، رقم الحدیث: ۶۵۱۱)،﴿وَلَا تَأْکُلُوْا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ﴾ أي بالحرام، یعني بالربا، والقمار، والغصب والسرقة(معالم التنزیل ۲: ۵۰)، الربا فضل خال عن عوض بمعیار شرعي مشروط لأحد المتعاقدین في المعاوضة (تنویر الأبصار مع الدر والرد، کتاب البیوع، باب الربا، ۷: ۳۹۸- ۴۰۱، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، لأن القمار من القمر الذي یزداد تارةً وینقص أخری، وسمی القمار قمارًا؛ لأن کل واحد من المقامرین ممن یجوز أن یذہب مالہ إلی صاحبہ، ویجوز أن یستفید مال صاحبہ، وہو حرام بالنص(رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة،باب الاستبراء، فصل في البیع، ۹: ۵۷۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند