• معاملات >> بیع و تجارت

    سوال نمبر: 150169

    عنوان: منرل واٹرکی تجارت کر سکتے ہیں یا نہیں؟

    سوال: منرل واٹر (MINARAL WATER)کی تجارت کر سکتے ہیں یا نہیں؟

    جواب نمبر: 150169

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 675-644/N=7/1438

    پانی جب تک اپنی اصل جگہ، یعنی: تالاب، کنواں یا بور وغیرہ میں ہو، کوئی اس کا مالک نہیں ہوتا، ہر شخص لے سکتا ہے، کسی کو روکا نہیں جاسکتا؛ لیکن اگر کسی شخص نے کسی تدبیر سے پانی اپنے کنٹرول وقبضہ میں کرلیا، مثلاً تالاب سے کسی نے کین یا ٹینکرمیں یا بور سے نکال کر ٹنکی میں بھرلیا تو وہ شخص اُس پانی کا مالک ہوجائے گا ،اوراس کے لیے اس پانی کا فروخت کرنا بھی درست ہوگا؛ اس لیے منرل واٹر (Minaral Water)کی تجارت کرسکتے ہیں، شرعاً بلا شبہ جائز ہے۔

    لحدیث:الناس شرکاء في ثلاث:فی الماء والکلإوالنار (الدر المختار مع رد المحتار،کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، ۷:۲۵۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قولہ: ”لحدیث: الناس شرکاء في ثلاث“:أخرجہ الطبراني بلفظ: ”المسلمون شرکاء في ثلاث“، وکذا أخرجہ ابن ماجة وفي آخرہ: ”وثمنہ حرام“ أي: ثمن کل واحد منھا، وأخرجہ أبو داود وأحمد وابن أبي شیبة وابن عدي، قال الحافظ ابن حجر:ورجالہ ثقات، نوح آفندي (رد المحتار)، ومعناہ-أي: معنی الاشتراک- فی الماء الشرب وسقي الدواب والاستقاء من الآبار والحیض والأنھار المملوکة ……أما إذا أحرز الماء بالاستقاء في آنیة والکلأ بقطعہ جاز حینئذ بیعہ لأنہ ملکہ بذلک (البحر الرائق،کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، ۶:۱۲۶،۱۲۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قال الرملي:إن صاحب البئر لا یملک الماء کما قدمہ فی البحر في کتاب الطھارة في شرح قولہ: ”وانتفاخ حیوان “عن الولوالجیة فراجعہ وھذا مادام فی البئر، أما إذا أخرجہ منھا بالاحتیال کما فی السواني فلا شک في ملکہ لہ لحیازتہ لہ فی الکیزان ثم صبہ فی البرک بعد حیازتہ (رد المحتار،کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، ۷: ۲۵۸) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند