معاملات >> بیع و تجارت
سوال نمبر: 146116
جواب نمبر: 14611601-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 181-132/H=2/1438
ایسی کتابیں اور نوٹ بک کہ جن پر جاندار کی تصاویر نہ ہوں اُن کے بیچنے خریدنے کا انتظام کرلیں تو اُس کا بہتر ہونا تو ظاہر ہے ورنہ صورت مسئولہ میں چونکہ تصاویر تبعاً ہوتی ہیں اور اصالةً کتابوں اور نوٹ بکس کی بیع و شراء ہوتی ہے اس لیے ان کے بیچنے خریدنے کی بھی گنجائش ہے اس کی آمدنی پر حرام وناجائز ہونے کا حکم نہ ہوگا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ہم گھڑی، شیشہ، بیگ وغیرہ کا کاروبار کرتے ہیں۔ ہم یہ سامان چین سے خریدتے ہیں۔ یہ سامان مشہور برانڈ کے نقلی ہوتے ہیں مثلاً ربیان رولیکس وغیرہ۔ ہم یہ سامان کراچی میں فروخت کرتے ہیں دکان داروں سے حقیقت بتاکرکے کہ یہ سامان نقلی ہیں اورتقریباً زیادہ تر دکاندار اپنے گراہکوں کو یہ سامان یہی بتاکر بیچتے ہیں کہ یہ نقلی ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ ان نقلی سامان کا خریدنا اور فروخت کرنا جائز ہے؟ پاکستان میں ہم یہ چیزیں مارکیٹ سے کھلے عام بغیر کسی پابندی کے خریدو فروخت کرتے ہیں۔میں نے ماہرین سے دریافت کیا انھوں نے بتایا کہ ان نقلی مال کو خریدو فروخت کرنے کا قانون ہے لیکن اس پر کوئی عمل درآمد نہیں ہے۔ کیا میرے لیے کاپی رائٹ سامان کی تجارت کرنا جائز ہے؟
3363 مناظرکیا ڈراپ شیپنگ حلال ہے یا حرام؟
9930 مناظرصرافہ کی دکان میں عام طور پر لوگ زیور خریدتے ہیں تو اس میں 10 گرام کے زیور میں9 گرام سونا ہوتا ہے اور1 گرام ٹانکا۔ دکاندار پورے 10 گرام کا دام لیتا ہے مگر واپسی پر صرف9 گرام کا دام ہی دیتا ہے (دکان دار یہ پہلے ہی شرط رکھ کر بیچتا ہے کہ واپسی پر9 گرام کا ہی دام دوں گا) ساتھ ہی ساتھ زیور کی مزدوری بھی لیتا ہے۔ میں صرافہ کی دکان کرنا چاہتا ہوں کیا بیع و شراء کی مذکورہ صورت درست ہے اگر نہیں تو کون سی صورت درست ہے؟
2014 مناظرمیری اطلاع کے مطابق علمائے کرام
کہتے ہیں کہ کاروبار میں منافع کی کوئی متعین آخری حد نہیں ہے۔ اس بات کا مشاہدہ کیا
جارہا ہے کہ اس فتوی کی وجہ سے تقریباً تمام کاروباری لوگ چاہے وہ خوردہ فروش ہوں،
تھوک فروش ہوں، یا صانع ہوں یا پیشہ ور ہو جیسے وکیل، ڈاکٹر وغیرہ وہ لوگ بہت زیادہ
اور حد سے زیادہ منافع لینے کے عادی ہوچکے ہیں۔مزید برآں، اب ہم قیامت کی ایک
علامت دیکھ رہے ہیں کہ ادنی اور حقیر کاروبار کے مالک جیسے کہ قصاب، نائی وغیرہ
مسلم معاشرہ کے بہت مالدار لوگ ہوچکے ہیں۔اس لیے میں یہ پوچھنا چاہتاہوں کہ کیا یہ
بات درست ہے کہ شریعت میں کاروبار میں منافع کمانے کی کوئی آخری حد متعین نہیں ہے؟
کیا شریعت نے اس بارے میں کوئی متعین اخلاقی حد نہیں متعین کی ہے؟ یا کیا معزز
علمائے کرام مسلم معاشرہ کو صحیح اسلامی کاروبار کی تصویر دکھانے کے ذمہ دار نہیں
ہیں اس پر قابو پانے کے لیے؟