عبادات >> زکاة و صدقات
سوال نمبر: 178361
جواب نمبر: 178361
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 771-623/D=09/1441
زکاة کے بارے میں حکم شرعی یہ ہے کہ توخذ من اغنیاء ہم فترد علٰی فقراء ہم کہ اغنیاء سے زکاة لے کر فقراء کو ادا کی جائے۔
لہٰذا جنہیں زکاة ادا کی جائے ان کا مستحق زکاة ہونا ضروری ہے یعنی سونا چاندی نقد رقم غیر ضروری اسباب بقدر نصاب ان کی ملکیت میں نہ ہو۔
صورت مسئولہ میں اگر کوئی صاحب نصاب اس طرح مقید و محبوس ہو گیا ہے کہ اپنی مملوکہ رقم کو بھی استعمال نہیں کر سکتا (مثلاً بینک اور اے ٹی ایم کے بند ہونے کی وجہ سے) یا رقم ہے مگر سامان خرید نہیں سکتا تو وہ مثل ابن السبیل کے ہو گیا اسے زکاة کی رقم سے مدد پہونچائی جا سکتی ہے۔ لیکن خود ایسے شخص کے لئے بہتر ہے کہ اگر قرض لے کر کام چلا سکتا ہو تو ایسا کرلے ورنہ اگر زکاة کی رقم یا سامان لینا ہی ناگزیر ہو جائے تو بقدر ضرورت ہی لینے پر اکتفا کرے۔ قال الشامی: وألحق بہ ای بابن السبیل کل من ہو غائب عن مالہوان کان فی بلدہ؛ لان الحاجة ہی المعتبرة وقد وجدت ؛ لانہ فقیر یداً وان کان غنیاً ظاہراً ․․․․․․․ وقال فی الفتح ایضا: ولا یحل لہ ای لان السبیل ان یاخذ اکثر من حاجتہ، والاولٰی لہ أن یستقرض إن قدر۔ (الدر مع الرد: ۳/۲۹۰)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند