عبادات >> زکاة و صدقات
سوال نمبر: 174769
جواب نمبر: 174769
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:292-76T/SN=3/1441
آپ کا سوال مکمل طور پر واضح نہیں ہے، آپ اپنی بات سمجھا کر لکھیں کہ آپ کیا پوچھنا چاہتے ہیں ؛ البتہ اصولی طور پر چند باتیں تحریر کی جارہی ہیں ، ممکن ہے ان سے آپ کو تشفی ہوجائے ۔(الف) مکان پر زکات اس وقت واجب ہوتی ہے جب خریدتے وقت ہی اسے آگے فروخت کرنے کی نیت ہو اور بعد میں بھی وہ نیت برقرار ہو، اگر خریدتے وقت آگے فروخت کرنے کی نیت نہ تھی یا تھی ؛ لیکن بعد میں بدل گئی یامکان وراثت یا گفٹ میں ملا ہے، یا کرائے پر دینے کی نیت سے تعمیر کی گئی ہے تو ان تمام صورتوں میں مکان کی مالیت پر شرعا زکات واجب نہیں ہے،اگرچہ بعد میں فروخت کرنے کی نیت ہوگئی ہو۔(ب) جو مکان کرائے پر دے کر آمدنی حاصل کرنے کی نیت سے تعمیر کی گئی ہو ،اس کی مالیت پر زکات واجب نہیں ہے؛ ہاں جو آمدنی حاصل ہوگی اگر وہ خود یا دیگر مملوکہ قابل زکات مال( مثلا روپیہ پیسہ سونا چاندی) کے ساتھ مل کر قدر نصاب کو پہنچ رہی ہو تو اس پر حسب ضابطہ زکات واجب ہوگی ۔(ج) اگر کوئی مکان فروخت کی غرض سے تعمیر کی گئی ہے ؛ لیکن کسٹمر نہ ملنے کی وجہ سے عارضی طور پر کرایہ پر دے دیا گیا ہے اور نیت یہ ہے کہ مناسب کسٹمر ملنے پر فروخت کردے گا تو شرعا اس کی مالیت پر ز کات واجب ہے، کرایے کی مد میں جو رقم حاصل ہو اس سے بھی اس کی زکات ادا کی جاسکتی ہے ۔
(لا یبقی للتجارة ما) أی عبد مثلا (اشتراہ لہا فنوی) بعد ذلک (خدمتہ ثم) ما نواہ للخدمة (لا یصیر للتجارة) وإن نواہ لہا ما لم یبعہ بجنس ما فیہ الزکاة. والفرق أن التجارة عمل فلا تتم بمجرد النیة؛ بخلاف الأول فإنہ ترک العمل فیتم بہا (وما اشتراہ لہا) أی للتجارة (کان لہا) لمقارنة النیة لعقد التجارة (لا ما ورثہ ونواہ لہا) لعدم العقد إلا إذا تصرف فیہ أی ناویا فتجب الزکاة لاقتران النیة بالعمل..... (قولہ: کان لہا إلخ) لأن الشرط فی التجارة مقارنتہا لعقدہا وہو کسب المال بالمال بعقد شراء أو إجارة....(قولہ فنوی بعد ذلک خدمتہ) أی، وأن لا یبقی للتجارة لما فی الخانیة عبد التجارة: إذا أراد أن یستخدمہ سنتین فاستخدمہ فہو للتجارة علی حالہ إلا أن ینوی أن یخرجہ من التجارة ویجعلہ للخدمة. اہ. (الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار)3/193،ط:زکریا)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند