• متفرقات >> تصوف

    سوال نمبر: 2284

    عنوان: کیا ایک ساتھ ایک لَے میں ذکر کرنا اس طرح سے کہ شیخ ایک لفظ کہے اور دوسرے لوگ اس کو دہرائیں، کیسا ہے؟

    سوال:

    (۱) کیا اجتماعی ذکر جائزہے؟

    (۲) کیا ایک ساتھ ایک لَے میں ذکر کرنا اس طرح سے کہ شیخ ایک لفظ کہے اور دوسرے لوگ اس کو دہرائیں، کیسا ہے؟

    (۳) ذکر کہاں کیا جائے ، کیا جگہ کا معاملہ اہمیت رکھتا ہے؟

    (۴) کیا شیخ کا ہاتھ چومنا او ر چہرہ پر پھیرنا جائز ہے؟

    (۵) شیخ اگر عالم نہ ہو تو کیا حکم ہے؟

    براہ کرم، اگر ممکن ہو تو تفصیل سے جواب دیں؛ کیوں کہ میں متردد ہوں ۔ میں بیعت ہونا چاہتا ہوں، لیکن کچھ لوگ کہتے ہیں کہ بعض بیعت از قبیل بدعت ہے۔

    جواب نمبر: 2284

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوى: 874/ب=818/ب

     

    (۱) اجتماعی ذکر جائز ہے، قرآن و حدیث سے ثابت ہے، عن عبد الرحمن بن سھل قال نزلت علی رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وسلم وھو في بعض أبیاتہ ﴿وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِیِّ﴾ فخرج یلتمسُھم، فوجد قوماً یذکرون اللّہ فیھم ثائر الرأس وجاف الجلد وذو الثوب الواحد الخ (أخرجہ ابن جریر والطبراني وابن مردویة) دوسری حدیث میں ہے جو جماعت اللہ کے ذکر میں مشغول ہوتی ہے، فرشتے اس کو ہرطرف سے گھیر لیتے ہیں اور رحمت ان کو ڈھانک لیتی ہے اور سکینہ ان پر نازل ہوتا ہے اور اللہ اس کا تذکرہ اپنی مجلس میں تفاخر کے ساتھ فرماتے ہیں (اخرجہ احمد و مسلم والترمذی)

    (۲) ذکر کی جو صورت آپ نے تحریر فرمائی ہے بہتر نہیں، ہرایک کو اپنا اپنا ذکر کرنا چاہیے، بہتر یہ ہے کہ سرا ذکر کریں، جہراً ذکر کرنے کی بھی گنجائش ہے بشرطیکہ ریا و نمود کا شائبہ نہ ہو، اور نہ ہی اس سے دوسروں کو پریشانی لاحق ہوتی ہو۔

    (۳) ذکر کے لیے کوئی خاص جگہ متعین نہیں، چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے کسی طرح بھی کرسکتے ہیں ﴿اَلَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیَامًا وَّقُعُوْدًا وَّعلیٰ جُنُوْبِہِمْ﴾ الآیة البتہ ایسی جگہ زیادہ بہترہے جہاں اطمینان و یکسوئی حاصل ہو من ذکر اللہ خالیاً ففاضت عیناہ (الحدیث)

    (۴) کبھی کبھار قابل تعظیم عالم باعمل متبع سنت پیر کا ہاتھ چوم لینا یا پیر کا کسی کے سرپر ہاتھ پھیردینا مباح ہے۔

    (۵) کسی ایسے پیر کو تلاش کرنا چاہیے جو عالم باعمل متبع سنت ہونے کے ساتھ ساتھ راہِ طریقت و سلوک کا بھی تجربہ رکھتا ہو۔

    (۶) کبائر سے بچنے، صغائر پر اصرار نہ کرنے اور طاعات پر جمنے کے لیے کسی شیخ طریقت کے ہاتھ پر معاہدہ کرنا حضراتِ صوفیا کی اصطلاح میں بیعت توبہکہلاتا ہے۔ یہ عمل مسنون ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویالقول الجمیل میں فرماتے ہیں: اعلم أن البیعة سنة لیست بواجبة لأن الناس بایعوا النبي صلی اللّہ علیہ وسلم وتقربوا بھا إلی اللّہ، ولم یدل دلی علی تأثیم تارکہا، ولم ینکر أحد من الأئمة علی تارکھا۔ آگے فرماتے ہیں: اعلم البیعة المتوارثة بین الصوفیة علی وجوہ أحدھا بیعة التوبة من المعاصي۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند