متفرقات >> تصوف
سوال نمبر: 174317
جواب نمبر: 174317
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 270-220/H=03/1441
بیعت کرنا کرانا تو قرآنِ کریم سے ثابت ہے۔ اصل مقصود تو اصلاحِ نفس اور احکام شرعیہ پر کمال درجہ کا عمل ہے، ارتکابِ معاصی سے کامل اہتمام کے ساتھ اپنا تحفظ و بچاوٴ ہے اور اصل مقصود کو حاصل کرنے میں اگر بلحاظِ زمانہ کچھ چیزوں کی ضرورت ہو اور بغیر ان کو اختیار کئے مقصود حاصل نہ ہو سکے تو وہ چیزیں بھی ضروری ہو جاتی ہیں مثلاً مقصد تو حج کی ادائیگی ہے مگر آج کل ہوائی جہاز اور اس کے متعلقات کے بغیر حج کا سفر ممکن نہیں تو اگرچہ زمانہٴ خیر القرون میں ہوائی جہاز وغیرہ نہ تھا مگر اب اس کا اختیار کرنا لازم ہوگیا پس ہوائی جہاز سے سفر حج کو بدعت نہ کہا جائے گا؛ البتہ حج ہی کے احکام میں کوئی شخص کتربیونت یا کمی بیشی کرنے لگے تو یہ البتہ بدعت ہے ناجائز و حرام اور گناہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھ لیجئے کہ ایک احداث للدین ہے دوسرا احداث فی الدین ہے اہل حق متبع سنت شیخ کامل جو اَوراد و وظائف اور مجاہدات اختیار کرتے کراتے ہیں اور وہ اَوراد و مجاہدات قرآن و حدیث کے خلاف نہیں ہیں تو ان کی پابندی بدعت نہیں ہے جیسے اطباء اور ڈاکٹر جو دوائیں بطور معالجہ تجویز کرتے ہیں ان کا زمانہٴ خیر القرون میں ثابت ہونا ضروری نہیں بس اتنا کافی ہے کہ کتاب و سنت کے خلاف نہ ہوں ”شریعت و طریقت کا تلازم“ ایک کتاب ہے اس میں بہت عمدہ اور مدلل بحث اس کے متعلق مذکور ہے حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ رحمة واسعہ کی تصنیف ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند