• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 176541

    عنوان: مطلقہ بیوی كے مہر كی ادائیگی

    سوال: سوال: میرا طوبی نامی لڑکا سے نکاح ہوا حق مہر 4 سونے کی چوڑیاں تہہ پایا میرا اپنی بیوی سے نکاح کے بعد ایک دفعہ ملاقات ہوئی اس وقت بھی میں نے رمضان کا روزہ رکھا ہوا تھا میں اکیلے کمرے میں تھا لیکن وہاں پر میرے ساس اور سسر کا آنا جانا بھی تھی میری بیوی نے ساس کو کہا کہ آپ جائیں میں نے اپنے شوہر سے اکیلے میں بات کرنی ہے ساس چلی گئی میں نے صرف اس کے ہاتھ چومے میں رمضان کا روزہ رکھا ہوا تھا اسی دن میرے والد کی میرے سسر سے لڑائی ہو گئی اور انہوں نے مجھ سے طلاق کا مطالبہ کر دیا ۔ میں نے غلطی سے سسر جو بتا دیا کہ میں نفسیاتی طور پر بیمار ہوں اور اپنا علاج کروا رہا ہوں دراصل مجھے اپنے دفتر میں ایک لڑکی سے محبت ہو گئی تھی اور اس سے بھی شادی کرنا چاہتا تھا لیکن وہ لڑکی مجھے ناپسند کرتی تھی اس نے پہلے مجھے پیار کا جھانسا دیا اور پھر پیچھے ہٹ گئی کیونکی اس کی خواہش کے مطابق میں اتنا امیر نہٰیں تھا اس کے دل دکھانے سے میں پاگل ہو گیا تھا یہ بات جب میں نے سسر کو بتائی تو اس نے طلاق کا مطالبہ کر دیا میں نے ایک طلاق بائن کی نیت ست میسیج کیا کہ میں طوبی کو اپنے نکاح سے آزاد کرتا ہوں اب یہ کسی بھی فرد سے نکاح کر سکتی ہے اس کے چند ماہ بعد مجھے سرکاری نوکری سے نکال دیا گیا عشق بازی کی وجہ سے جب میں عدالت سے بحال ہو گیا میں اپنی سابقہ بیوی کے گھر گیا اس کے بھائی سے اشارے کنائے میں پوچھا کہ آپ کا کام ہوگیا اس نے کہا کہ کام بھی بھلا کسی کے رکتے ہیں میں نے کہا اللہ کا شکر ہے میری وجہ سے کسی کا نقصان نہیں ہوا۔ اس کے بعد اس نے کہا آپ یہاں سے نکل جاو۔ اس کے بعد میں نے ایک خط تیار کیا جس میں ساری تفصیل لکھی کہ میں بحال ہونے والا ہوں اور مٰیں طوبی سے دوبارا نکاح کرنا چاہتا ہوں اس میں اپنا فون نمبر اور اہنے گھر کا پتہ بھی اور اپنے ابا کا فون نمبر بھی لکھا لیکن وہاں سے کوئی جواب نہیں آیا۔ تاہم میں نے یہ بھی لکھا کہ اگر لڑکی کی کہیں اور شادی ہو گئی ہے تو میں بھی کہیں اور شادی کروں گا ۔ میں دوبارا تیسیری مرتبہ ان کے گھر پھر گیا خط پھینکنے کے ایک ماہ بعد اس دفعہ لڑکی کا باپ ملا اس نے کہا ہمارا کام ہو گیا اور ہاتھ سے اشارہ بھی کیا جس سے ثابت ہو رہا تھا کہ لڑکی کی شادی ہو گئی ہے اور کہا آپ جا سکتے ہیں اس کے بعد لڑکی کے باپ سے معافی مانگی اس نے کہا ٹھیک ہے اب میرے لئے کیا حکم ہے جبکہ میری شادی مارچ میں ہے اب میرے اوپر کیا شرعی فرض ہے لڑکی کے گھر جانا خطرے سے خالی نہ ہے میرے والدین اس کا مہر بھی نہیں دینا چاہتے اور میرا ایک دوست میرے ساتھ اس کے گھر مہر دیتے کے لئے جانے کے لئے راضی ہے کیا مہر کی رقم اس کے باپ کو دی جاسکتی ہے۔

    جواب نمبر: 176541

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:494-92T/SD=7/1441

     صورت مسئولہ میں آپ نے جو تفصیل لکھی ہے کہ اس کی رو سے نکاح کے بعد خلوت صحیحہ کا چونکہ تحقق ہوگیا تھا، اس لیے آپ کے ذمہ مکمل مہر کی ادائیگی ضروری ہے اور مہر بیوی کا حق ہے ، اس لیے مطلقہ بیوی تک اس کامہر پہنچانا ضروری ہے ، مطلقہ کے والد پر اگر اطمینان ہو تواس کے توسط سے بھی مہر کی رقم پہنچائی جاسکتی ہے ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند