• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 174652

    عنوان: كنائی الفاظ طلاق كی نیت سے نہیں كہے تو طلاق كا كیا حكم ہے؟

    سوال: ۹/ اکتوبر 2019ء کی رات کو بیوی سے بات کرتے وقت کسی بات سخت بحث ہوگئی اور میں نے بات کرتے کرتے اسے کہا کہ تم فارغ ہو جا کر اپنا کام کرو ابھی تنگ یا بات مت کرو، وغیرہ ، میں نارمل میں یہ الفاظ ہر کسی کو غصے میں بو ل جاتاہوں، اپنے دوستوں کو ، آفس کے اسٹاف کو یا گھر میں بھائی اور بہن کو ، اس لیے نارمل میں یہ الفاظ میری زبان پر رہتے ہیں جن سے مراد” کسی کام کے نہیں ہو آپ لوگ وغیرہ“۔ اس کے بعد صبح وہ اپنے والدین کے گھر چلی گئی کہ شاید اب ہمارا تعلق نہیں رہا آپ جاکر فتوی لے آئیں، میں نے کہا کہ میری ایسی کوئی نیت نہیں تھی ، میری نیت ہوتی تو میں میں ڈائریکٹ طلاق دو ں گا، پھر کل ۲۱/اکتوبر 2019ء کو میں بچوں کو لینے اس کے والدین کے گھر گیا تو وہ سامنے آئی اور ہمارے درمیان کافی دیر تک بحث ہوئی ، میں نے اس سے ایک سوال کیا کہ ایک فقرہ کہنے سے طلاق ہوگئی اور دوسرا فقرہ کہنے سے طلاق نہیں ہوئی تو تم کس کی بات مانوگی تو اس نے کہا کہ آپ کی نیت دیکھی جائے گی تو میں نے کہا کہ میں یہی تو کہہ رہاہوں کہ میری نیت نہیں تھی، اور اس کی گواہی وہ خود بھی دے رہی ہے اور کہتی ہے کہ مجھے پتا ہے کہ آپ کی ایسی کوئی نیت نہیں تھی پر اسی وقت آپ سے پوچھا تھا جس کا آپ نے جواب نہیں دیاتو میں نے کہا کہ میں نے تمہاری وہ بات نہیں سنی تھی اگر سنی ہوتی تو جواب دیتا ۔ لیکن شبہ میں وہ صبح اپنے والدین کے گھر چلی گئی ہے۔ میری ایسی کوئی نیت نہیں تھی ، میں یہ بات حلفاً کہتاہوں بس یہ الفاظ میری زبان پر اکثر رہتے ہیں ، طلاق دینے کی کوئی میری کوئی نیت نہیں تھی۔ براہ کرم، جواب دیں۔ جزاک اللہ

    جواب نمبر: 174652

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 241-188/D=03/1441

    صورت مسئولہ میں جب آپ نے مذکورہ الفاظ طلاق کی نیت سے نہیں کہے تو بیوی پر کوئی طلاق نہیں پڑی اس لئے کہ یہ طلاق کے الفاظ کنائی میں سے ہے اور الفاظ کنائی میں شوہر کی نیت کا اعتبار ہوتا ہے، بغیر اس کی نیت کے طلاق نہیں پڑتی۔

    وفی حالة الغضب یصدّق في جمیع ذلک لاحتمال الردّ والسبّ إلا فیما یصلح للطلاق ولایصلح للردّ والشتم ۔ (ہندیة: ۱/۴۱۰، ط: دارالکتب العلمیة)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند