معاملات >> شیئرز وسرمایہ کاری
سوال نمبر: 171407
جواب نمبر: 171407
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:1262-1106/L=11/1440
اگر سامان خریدتے وقت ہی وقت اور ثمن کی تعیین ہوجائے مثلاً: میں تین مہینے، یا چھ مہینے، یا نو مہینے، یاسال بھر کی قسط پر اتنے روپے میں یہ سامان خریدتا ہوں (گو وہ ریٹ موجودہ قیمت سے کچھ زائد ہو) تو اس طور پر خریدوفروخت میں کوئی حرج نہیں ہے۔
وإذا عقد العقد علی أنہ إلی أجل کذا بکذا وبالنقد بکذا أو قال إلی شہر بکذا أو إلی شہرین بکذا فہو فاسد؛ لأنہ لم یعاطہ علی ثمن معلوم ولنہی النبی - صلی اللہ علیہ وسلم - عن شرطین فی بیع وہذا ہو تفسیر الشرطین فی بیع ومطلق النہی یوجب الفساد فی العقود الشرعیة وہذا إذا افترقا علی ہذا فإن کان یتراضیان بینہما ولم یتفرقا حتی قاطعہ علی ثمن معلوم، وأتما العقد علیہ فہو جائز؛ لأنہما ما افترقا إلا بعد تمام شرط صحة العقد(المبسوط للسرخسی 13/ 8، الناشر: دار المعرفة - بیروت)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند