عبادات >> صوم (روزہ )
سوال نمبر: 169065
جواب نمبر: 169065
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:603-611/sn=8/1440
کفارہ رمضان کا روزہ رکھ کر عمدا توڑ دینے سے واجب ہوتا ہے، صورت مسؤولہ میں چونکہ وقت ختم ہونے کے بعد بھی کھانا کھانے کی وجہ سے روزہ معتبر ہی نہیں ہوا ؛ اس لئے یہاں یہ نہیں کہا جا ئے گا کہ روزہ رکھ کر عمدا توڑ دیا ؛ بلکہ یہ کہا جائے گا کہ اس نے روزہ رکھا ہی نہیں اور روزہ نہ رکھنا گناہ تو ہے ؛ لیکن ایک روزہ کی جگہ ایک روزہ رکھ لینا ہی شرعا کافی ہوتا ہے، کفارہ واجب نہیں ہوتا؛ لہذا یہاں بھی ایک کے بدلے ایک روزہ رکھنا کافی ہوگا، کفارہ واجب نہ ہوگا۔
(أو لم ینو فی رمضان کلہ صوما ولا فطرا) مع الإمساک لشبہة خلاف زفر (أو أصبح غیر ناو للصوم فأکل عمدا) ولو بعد النیة قبل الزوال لشبہة خلاف الشافعی........ (أو تسحر أو أفطر یظن الیوم) أی الوقت الذی أکل فیہ (لیلا و) الحال أن (الفجر طالع والشمس لم تغرب) لف ونشر ویکفی الشک فی الأول....... (قضی) فی الصور کلہا (فقط)(الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 3/377 تا 382، ط: زکریا)
وکذا لا یدخل فیہ من أصبح یوم الشک مفطرا أو تسحر علی ظن اللیل أو أفطر کذلک ولذا ذکر فی البدائع الأصل المذکور ثم قال: وکذا کل من وجب علیہ الصوم لوجود سبب الوجوب والأہلیة ثم تعذر علیہ المضی بأن أفطر متعمدا أو أصبح یوم الشک مفطرا ثم تبین أنہ من رمضان أو تسحر علی ظن أن الفجرلم یطلع ثم تبین طلوعہ، فإنہ یجب علیہ الإمساک تشبہا اہ.[الدر المختاروحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 2/ 408)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند