• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 177725

    عنوان: اگر كوئی شخص كسی دوسری جگہ مستقل رہائش اختیار كرلے تو وطن اصلی پہنچ كر نماز كس طرح پڑھے گا؟

    سوال: میرا آبائی وطن کا ایک قصبہ ترودی("tirodi" ) ہے، جو مدھیہ پردیش کے ضلع بالاگھاٹ میں ہے، جہاں پر میری اور میر ے والد صاحب کی جائے پیدائش ہے، حالانکہ میں اور میر ے والدین پورے اہل خانہ کے ساتھ گذشتہ سات سالوں سے اس آبائی وطن” تیرودی“ سے 110کلو میٹر دور ایک شہر ”کانپٹی “میں رہ رہے ہیں جو مہاراشٹر کے ناگپور ضلع میں ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ہم اپنے آبائی وطن کو سات سال قبل چھوڑ چکے ہیں ، لیکن ہر دو تین مہینے میں وہاں جاتے رہتے ہیں، اور اب بھی اس قصبہ میں ہماری آبائی ملکیت موجود ہے، جو اب تک تقسیم نہیں ہوئی ہے جو دو مکان اور ایک دکان پر مشتمل ہے اور میرے مرحوم دادا کے ہی نام پر ہے جس میں سے ایک مکان میں میرے بڑے ابا رہتے ہیں اور ایک میں ہم لوگ رہتے تھے جس کو سات سالوں سے ہمارے کرائے پر دے رکھاہے، ہر دو تین مہینوں میں جب بھی وہاں جاتے ہیں تو اپنے تایا ابا کے گھر قیام کرتے ہیں۔ اب میرا سوال یہ ہے کہ ان دونوں مقامات پر مقیم کی حیثیت سے عبادت کریں یا کسی ایک مقام پر مسافر کی حیثیت سے عبادت کریں تو مقام کونسا ہوگا؟

    جواب نمبر: 177725

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 714-595/D=08/1441

    ترودی جو آپ کا آبائی وطن ہے وہاں سے رہائش منتقل کرکے آپ لوگ کانپٹی آگئے لیکن ”ترودی“ کے وطن ہونے کو پورے طور پر آپ لوگوں نے ختم نہیں کیا وہاں آپ کے والد کی جائیداد بھی ہے اور وقفہ وقفہ سے جانا بھی ہوتا ہے پس ترودی آپ لوگوں کے لئے وطن باقی ہے جب تک آپ لوگ بالکل اسے چھوڑ دینے کا ارادہ نہ کریں گے وہ وطن باقی رہے گا جس کا حکم یہ ہے کہ دو چار روز کے لئے بھی جائیں گے تو نماز پوری پڑھیں گے وہاں مسافر نہیں رہیں گے؛ البتہ وہ جگہ چونکہ کانپٹی سے ۱۱۰/ کلو میٹر دور ہے اس لئے جاتے وقت اور آتے وقت راستہ میں مسافر رہیں گے۔

    اسی طرح ”کانپٹی“ میں مستقل رہنے کا ارادہ اگر کر لیا ہے اور یہاں کی سکونت کسی عارضی سبب سے نہیں ہے بلکہ مستقل یہاں رہنے کا ارادہ ہوگیا تب تو یہ بھی آپ کا وطن اصلی ہوگا یہاں پوری نماز پڑھیں گے۔ اور اگر مستقل رہائش کا ارادہ نہیں ہے نہ ہی اسے وطن بنایا گیا تو اس کی حیثیت وطن اقامت کی ہوگی پندرہ دن سے کم قیام کرنے کی صورت میں قصر کریں گے اور زیادہ قیام کرنے کی صورت میں اتمام کریں گے۔

    قال فی البدائع: ثم الوطن الاصلی یجوز ان یکون واحداً او اکثر بان کان لہ اہل و دار فی بلدتین و اکثر ولم یکن من نیة اہلہالخروج منہا وان کان ہو ینتقل من اہل الی اہل فی السنة (بدائع الصنائع: ۱/۲۸۰)

    قال ایضا: وہو ان یقصد الانسان ان یمکث فی موضع صالح للاقامة خمسة عشر یوما او اکثر (بدائع: ۱/۲۸۰)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند