• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 177714

    عنوان: جماعت خانہ كسی اور منزل پر منتقل كرنا ؟

    سوال: سوال: مسجد تین منزلہ ہیں۔پہلی منزل میں آج تک پانچوں مے سے کسی نماز کی جماعت نہیں ہوئی اور نہ تیسری منزل پر اور خالص دوسری منزل پر آج تک جماعت ہوتی رہی ۔ لیکن کچھ دن پہلے ٹرسٹ(کمیٹی) نے جماعت خانہ کو دوسر سے پہلی منزل پر منتقل کر دیا تو کیا پہلی منزل پر اتنا ثواب ملیگا مسجد میں جتنا ثواب ملتا ہے؟ (2)کیا اس طرح منتقل کر سکتے ہے؟ (3)مسجد کی کیسے متعین کی جاتی ہے؟ (4)کیا مسجد کے اوپر کا حصہ اور نیچے کا حصہ مسجد کا حصہ شمار ہوتا ہے؟اور کیا وہا ں پر دوسری جماعت کر سکتے ہیں؟ (5)مسجد میں قضا نماز کی جماعت کر سکتے ہیں؟

    جواب نمبر: 177714

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:779-141T/L=8/1441

     (۱)مسجد کے تمام منزلیں مسجد ہی کے حصے ہیں، ان میں سے کسی بھی منزل پر نماز پڑھی جائے تو اس سے مسجد میں نماز پڑھنے کا ثواب ملے گا۔ (۲)جماعت خانہ کو دوسری منزل سے پہلی منزل میں منتقل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔(۳)کسی مکان کو مسجد کے لیے متعین کرکے اس میں نماز پڑھنے کی اجازت دینے سے وہ مکان شرعاً مسجد بن جاتا ہے ۔(۴)مسجد کے تمام منزلیں مسجد کے حصے ہیں خواہ اوپر کا ہو یا نیچے کا اور دوسری جماعت کسی بھی حصہ میں مکروہ ہے ۔(۵)مسجد میں قضاء نماز کی جماعت بھی مکروہ ہے ۔فی الدر المختار (و) کرہ تحریما (الوطء فوقہ، والبول والتغوط) لأنہ مسجد إلی عنان السماء.

    وفی رد المحتار: (قولہ إلی عنان السماء) بفتح العین، وکذا إلی تحت الثری کما فی البیری عن الإسبیجابی․ (رد المحتار 1/656) فی البنایة : وفی قاضی خان إن کان الإمام فی الصیفی یصلیہما فی الشتوی وإن کان فی الشتوی یصلیہما فی الصیفی، وإن کان الصیفی والشتوی واحدا یقوم خلف الصف وعند ساریة أو خلف أسطوانة أو نحوہما․ (البنایة 2/570) وَمِنْہَا حُکْمُ تَکْرَارِہَا فِی مَسْجِدٍ وَاحِدٍ فَفِی الْمَجْمَعِ وَلَا نُکَرِّرُہَا فِی مَسْجِدِ مَحَلَّةٍ بِأَذَانٍ ثَانٍ، وَفِی الْمُجْتَبَی وَیُکْرَہُ تَکْرَارُہَا فِی مَسْجِدٍ بِأَذَانٍ وَإِقَامَةٍ․ وفی حاشیة منحة الخالق : ومثلہ فی الحقائق وقدمنا نحوہ فی الأذان عن الکافی والمفتاح وذکر مثلہ المؤلف عن السراج، أقول: ومفاد ہذہ النقول کراہة التکرار مطلقا أی ولو بدون أذان وإقامة وأن معنی قول قاضی خان المار یصلی بغیر أذان وإقامة أنہ یصلی منفردا لا بالجماعة بدلیل التعلیل والاستدلال بالمروی عن الصحابة، ویؤیدہ قولہ فی الظہیریة وظاہر الروایة أنہم یصلون وحدانا اہ وحینئذ یشکل ما نقلہ الرملی عن رسالة العلامة السندی عن الملتقط وشرح المجمع وشرح درر البحار والعباب من أنہ یجوز تکرار الجماعة بلا أذان ولا إقامة ثانیة اتفاقا․ (البحر الرائق 1/366) فی رد المحتار : وفی المجتبی: قوم ذکروا فساد صلاة صلوہا فی المسجد فی الوقت قضوہا بجماعة فیہ ولا یعیدون الأذان والإقامة، وإن قضوہا بعد الوقت قضوہا فی غیر ذلک المسجد بأذان وإقامة․ (رد المحتار 1/391)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند