• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 176981

    عنوان: بلا کسی شرعی معذوری کے جو نمازیں قضا ہوئی ہیں ان کی ادائیگی کا حکم کیا ہوگا؟

    سوال: (۱- ۴): ایک عرصے تک نمازیں نہیں پڑھی گئیں تو اب کیا کیا جائے ، خیر القرون سے اس کی کوئی مثال تحریر کریں۔ اور اس عرصے میں جو نمازیں پڑھی گئی ہیں، کیا وہ بھی ادا کی جائیں، یہ تو انھیں باطل کرنا ہوگا؛ جب کہ قرآن میں ابطال اعمال سے منع کیا گیا ہے؟ گذارش یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں مروجہ نماز قضائے عمری کی مکمل تحقیق بحوالہ مسلک امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی وضاحت فرمائیں۔ 1-مجھ سے ایک عرصے تک بلا کسی شرعی معذوری کے نمازیں قضا ہوئی ہیں ان کی ادائیگی کا حکم کیا ہوگاجن کی تعداد کا تعین ناممکن ہے؟ 2 -قرون اولیٰ میں اس کی کوئی مثال ہے؟ 3 -جس زمانے میں مجھ سے نمازیں قضا ہوئیں اسی زمانے میں بحیثیت مسلمان میں نے بہت ساری نمازیں ادا بھی کیں۔ 4 -جبکہ قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ ولا تبتلو اعمالکم۔ براہ کرم، رہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 176981

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:562-483/N=8/1441

    (۱): اگر آپ کویقین کے ساتھ یاد نہیں ہے کہ آپ کی کل کتنی نمازیں قضا ہوئی ہیں اور وہ کون کون سی ہیں ؟ توآپ غالب گمان پر عمل کریں، یعنی:آپ ذہن پر زور ڈال کر سوچیں کہ کہ آپ کی قضا شدہ کل کتنی نمازیں ہیں اور وہ کون کون سی ہیں؟جتنی مقداراور جن نمازوں کے متعلق غالب گمان ہوجائے آپ وہ نمازیں اور اُن کی مقدار اپنی ڈائری وغیرہ میں نوٹ کرلیں۔ اور پھرایک ایک کرکے اُنھیں ادا کرنا شروع کریں ۔اور آپ جو نمازادا کرلیں، اُسے ڈائری میں لکھ لیں۔ اس طرح آپ تمام نمازیں ادا کرلیں۔ اور اگر آپ کو کسی مقدار کا غالب گمان نہ ہو تو آپ اس وقت تک نمازیں قضا کرتے رہیں جب تک یہ یقین نہ ہوجا ئے کہ تمام قضا نمازیں پڑھ لی گئی ہیں۔ اور جب اس کا یقین ہوجائے تو قضا نمازیں پڑھنا بند کردیں۔ اور تعیین کے ساتھ قضا نماز یاد نہ ہو تو اس طرح نیت کریں کہ میرے ذمہ جتنی فجر کی نمازیں قضا ہیں، میں ان میں سب سے پہلی فجر کی قضا کرتا ہوں یا یہ نیت کریں کہ سب سے آخری فجر کی قضا کرتا ہوں، اسی طرح ظہر وغیرہ میں بھی نیت کریں۔

    من لم یدر کمیة الفوائت یعمل بأکبر رأیہ، فإن لم یکن لہ رأي یقضي حتی یتیقن أنہ لم یبق علیہ شییء (حاشیة الطحطاوي علی المراقي،کتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت،ص ۴۴۷، ط:دار الکتب العلمیة بیروت)،کثرت الفوائت نوی أول ظھر علیہ أو آخرہ (الدر المختار، کتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت، ۲:۵۳۸، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۴: ۴۶۶، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔

    (۲): قرون اولی میں خیر وصلاح کا غلبہ تھا؛ اس لیے آپ کی طرح کسی شخص کے نمازیں قضا کرنے کا کوئی واقعہ مجھے کسی معتبر کتاب میں نہیں ملا۔

    (۳، ۴): آپ نے جو نمازیں ادا کی ہیں، اُن کی قضا کی ضرورت نہیں، آپ کو صرف اُن نمازوں کی قضا کرنی ہے، جو آپ نے نہیں پڑھی ہیں۔ اور جب اُن کی صحیح تعداد وغیرہ یاد نہیں ہے تو انھیں ادا کرنے کا طریقہ وہ ہے، جو اوپر فقہ حنفی کی کتابوں کے حوالے سے لکھ دیا گیا ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند