عبادات >> صلاة (نماز)
سوال نمبر: 175974
جواب نمبر: 175974
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:460-485/L=7/1441
اگر کسی نے نماز کی قراء ت میں ایک حرف کو دوسرے حرف سے بدل دیا تو اس کا حکم مختلف ہو سکتا ہے، کبھی نماز فاسد ہوتی ہے اور کبھی فاسد نہیں ہوتی، اس کے لئے کوئی عام ضابطہ بیان کرنا مشکل ہے؛ جہاں تک أخطأنا کی جگہ أخطعنا پڑھنے کا ہے تواگر قاری کوئی ایسا جملہ کہہ دے جس کامثل قرآن میں نہ ہو اور نہ ہی اس کا کوئی معنی ہو تو نماز فاسد ہوجاتی ہے ،اس لحاظ سے نماز فاسد ہوجانی چاہیے؛ البتہ متاخرین نے چونکہ اس میں کافی وسعت دے رکھی ہے خاص کر عجمیوں کے حق میں؛ اس لیے اگر کسی نے غلطی سے ایسا تلفظ کردیا تو فساد کا حکم مشکل ہے ،احتیاطاً نماز کا اعادہ کرلینا بہتر ہے۔ قال فی رد المحتار: فإن لم یکن مثلہ فی القرآن والمعنی بعید متغیر تغیرا فاحشا یفسد أیضا کہذا الغبار مکان ہذا الغراب.وکذا إذا لم یکن مثلہ فی القرآن ولا معنی لہ کالسرائل باللام مکان السرائر.(الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 1/ 631)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند