• عبادات >> ذبیحہ وقربانی

    سوال نمبر: 172939

    عنوان: قربانی کے جانور کا دودھ دوہ کر اس سے چارے کا بندوبست کرنا شرعا کیسا ہے؟

    سوال: قربانی کے جانور کادودھ بیچ کر ان کے لیے چارہ وغیرہ لایاجا ئے تویہ جائز ہے ؟

    جواب نمبر: 172939

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1163-922/sn=2/1441

    قربانی کے جانور کا دودھ دوہنا ہی نہیں چاہیے؛ بلکہ کوئی ایسی تدبیر کرنی چاہیے کہ تھن میں دودھ جمع ہی نہ ہو ، فقہا نے اس کے لیے تھن پر ٹھنڈا پانی چھڑکنے کی تدبیر تحریر فرمائی ہے؛ باقی اگر ضرورتاً دوہنا پڑے تو اس کا تصدق واجب ہے؛ ہاں اگر جانور باہر چرنے پر اکتفا نہ کرے؛ بلکہ چارہ خرید کر کھلانا پڑے تو اس رقم سے چارہ خرید کر کھلانا درست ہے۔

     (وکرہ) (جز صوفہا قبل الذبح) لینتفع بہ، فإن جزہ تصدق بہ، ولا یرکبہا ولا یحمل علیہا شیئا ولا یؤجرہا فإن فعل تصدق بالأجرة حاوی الفتاوی لأنہ التزم إقامة القربة بجمیع أجزائہا (بخلاف ما بعدہ) لحصول المقصود مجتبی (ویکرہ) (الانتفاع بلبنہا قبلہ) کما فی الصوف، ومنہم من أجازہما للغنی لوجوبہما فی الذمة فلا تتعین زیلعی....(قولہ ویکرہ الانتفاع بلبنہا) فإن کانت التضحیة قریبة ینضح ضرعہا بالماء البارد وإلا حلبہ وتصدق بہ کما فی الکفایة (قولہ لوجوبہا فی الذمة فلا تتعین) والجواب أن المشتراة للأضحیة متعینة للقربة إلی أن یقام غیرہا مقامہا فلا یحل لہ الانتفاع بہا ما دامت متعینة ولہذا لا یحل لہ لحمہا إذا ذبحہا قبل وقتہا بدائع، ویأتی قریبا أنہ یکرہ أن یبدل بہا غیرہا فیفید التعین أیضا، وبہ اندفع ما مر عن المنح فتدبر.(الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 9/ 475، ط: زکریا، دیوبند)

     ...فإن کان یعلفہا فما اکتسب من لبنہا أو انتفع من روثہا فہو لہ، ولا یتصدق بشیء، کذا فی محیط السرخسی.(الہندیة 5/ 301)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند