متفرقات >> دیگر
سوال نمبر: 178145
جواب نمبر: 178145
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:848-154T/L=9/1441
کسی عالم کے ریکارڈ بیان سننے سے یا ان کی لکھی ہوئی کتاب پڑھنے سے ان کی سند حاصل نہیں ہوتی، اس لیے صرف ریکارڈ بیان سن کر یا کتاب پڑھ کر ان کی سند سے حدیث بیان کرنا جائز نہیں؛البتہ اگر اس طرح بیان کیا جائے کہ میں نے فلاں عالم کے ریکارڈ بیان سے سنا یا فلاں عالم کی کتاب میں پڑھا تو یہ جائز ہوگا۔
فی التقریب والتیسیر : القسم الثامن: الوجادة وہی مصدر لوجد مولّد غیر مسموع من العرب، وہی أن یقف علی أحادیث بخط راویہا لا یرویہا الواجد فلہ أن یقول: وجدت أو قرأت بخط فلان أو فی کتابہ بخطہ حدثنا فلان ویسوق الإسناد والمتن، أو قرأت بخط فلان عن فلان، ہذا الذی استمر علیہ العمل قدیماً وحدیثاً، وہو من باب المنقطع، وفیہ شوب إتصال، وجازف بعضہم فأطلق فیہا حدثنا وأخبرنا، وأنکر علیہ، وإذا وجد حدیثاً فی تألیف شخص، قال ذکر فلان أو قال أخبرنا فلان وہذا منقطع لا شوب فیہ، وہذا کلہ إذا وثق بأنہ خطہ وکتابہ، وإلا فلیقل: بلغنی عن فلان أو وجدت عنہ ونحوہ أو قرأت فی کتاب: أخبرنی فلان إنہ بخط فلان، أو ظننت أنہ خط فلان، أو ذکر کتابہ أنہ فلان، أو تصنیف فلان، أو قیل: بخط أو تصنیف فلان، وإذا نقل من تصنیف فلا یقل: قال فلان إلا إذا وثق بصحة النسخة بمقابلتہ أو ثقة لہا، فإن لم یوجد ہذا ولا نحوہ فلیقل: بلغنی عن فلان، أو وجدت فی نسخة من کتابہ ونحوہ، وتسامح أکثر الناس فی ہذہ الأعصار بالجزم فی ذلک من غیر تحر، والصواب ما ذکرناہ، فإن کان المطالع متقناً لا یخفی علیہ غالباً الساقط والمغیر رجونا جوازاً الجزم لہ، وإلا ہذا استروح کثیر من المصنفین فی نقلہم، وأما العمل بالوجادة فنقل عن معظم المحدثین والفقہاء المالکیین، وغیرہم أنہ لا یجوز، وعن الشافعی ونظار أصحابہ جوازہ وقطع بعض المحققین الشافعیین بوجوب العمل بہا عند حصول الثقة، وہذا ہو الصحیح الذی لا یتجہ ہذہ الأزمان غیرہ واللہ أعلم.[التقریب والتیسیر للنووی ص: 66)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند