• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 177462

    عنوان: میرا دل نہیں چاہتا كی شادی میں میرے ماموں كے گھر والے شریك ہوں؟

    سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم دونوں بھائیوں کی منگنی ہمارے ماموں کے گھر طے ہوئی تھی۔ ہم یہ چاہ رہے تھے کہ دونوں کی شادی اکٹھی ہو اس پر شروع میں ماموں بھی راضی تھے۔ ہماری والدہ ماموں سے شادی کی بات کرنے جاتیں تو ماموں کہتے کہ ابھی میرا ہاتھ تنگ ہے اور شادیاں نہیں ہو سکتیں۔ میرے بھائی کی پیدائش ستمبر 1984 کی ہے اور میری 1986 کی ہے ۔ ہماری جوانی گزر رہی تھی۔ بلآخر ماموں نے میرے بڑے بھائی کی شادی کی حامی بھر لی اورشادی 2018 نومبر میں ہو گئی۔ اور میری شادی کے بارے میں تقریبا طے ہوا کہ 6 یا 7 ماہ بعد ہو گی۔ میرے بھائی کی شادی سے پہلے میری منگیتر نے مجھ سے رابطہ کیا کہ میں یہ شادی نہیں کرنا چاہتی اور تم میری مدد کرو۔ میں تو چاہتا تھا کہ میری شادی اسی لڑکی سے ہو پھر بھی میں نے اپنی امی کو بتا دیا کہ میری منگیتر نے مجھے شادی سے انکار کردیا ہے۔ امی نے کہا کہ تم لوگ آپس میں کزن ہو اسلئے شاید شرمارہی ہوگی۔ تو میں نے اس سے پوچھا کہ کیا تم کسی اور سے شادی کرنا چاہتی ہو تو اس نے جواب دیا کہ نہیں میں شادی نہیں کرنا چاہتی۔ مگر امی نے کہا کی ماموں سخت ہیں اور اس سے کہو کہ خود اپنے امی ابو سے کہے کہ میری طرف سے انکار ہے۔ پھر میں نے اسے کہہ دیا کہ تم شادی کے لیے راضی نہیں تو خود انکار کردو۔ اس پر ہم کوئی رابطہ نہ ہوا۔ اب بھائی کی شادی کے بعد میں نے اس سے رابطہ کیا تو اس نے کہا کہ میں تم سے انکار کر چکی ہوں۔ مگر میں اپنے ابو سے نہیں کہہ سکتی۔ میں نے اسے تین دن کی مہلت دی کہ اگر اس نے اپبے ماں باپ سے بات نہ کی تو میں اس کے ابو یعنی ماموں سے بات کروں گا۔ اس پر اس نے تیسرے دن مجھےپیغام بھیجا کہ میں نے اپنے امی ابو سے بات کرلی ہے۔ اس دوران ایک دفعہ میرے ماموں کے گھر ایک لڑکا اس لڑکی سے ملاقات کرتا پکڑا گیا جو اس کے سب گھر والوں نے بھی دیکھا اور وہ ان کے غسل خانے میں چھپ گیا ۔ پولیس بلائی گئی تو پتہ چلا کہ وہ میری منگیتر سے ملنے آیا تھا۔ ماموں کو امی نے اس وقت بھی کہا تھا کہ اس لڑکی کی مجھ سے شادی کروا دو اس وقت انھوں نے کہا کہ اس مسئلہ کا حل شادی نہیں۔ یہ واقعۃ تقریبا 2011 یا 2012 کا ہے۔ خیر اب جب میں نے امی کو کہا کہ میری منگیتر نے اپنے ماں باپ کو بتا دیا ہے آپ ان سے پوچھ لیں وہ کیا کہتے ہیں۔ تو امی ناراض بھی ہوئی اور مجھے ایک لڑکے کا خط نکال کر دکھایا جو میری منگیتر کے ماموں کے بیٹے نے اس کو لکھا تھا۔ جس میں ان کی ملاقاتوں کا ذکر تھا اوریہ خط اس لڑکے کی بہن نے امی کو دیا تھا۔ مگر امی خاموش رہیں کہ میرےماموں کی بےعزتی ہو جائے گی۔ امی کو ہمیشہ ماموں بے عزت کرتے ، باتیں سناتے ، لڑائی تک کرتے حلانکہ میری امی ان سے بڑی ہیں۔ امی ہر بار کہتی کہ وہ میرا ایک ہی بھائی ہے۔ میں اس کو کچھ بھی نہیں کہوں گی۔ میں بھی اسی وجہ سے خاموش رہا۔ کیونکہ امی کو 2019 میں دل کا اٹیک ہوا تھا اور شوگر وغیرہ کی بھی بیماریاں تھیں۔ بہرحال امی میرے بڑے بھائی کے ساتھ ماموں کی طرف گئیں اور ان سے کہا کہ آپکی بیٹی نے رشتے سے انکار کردیا ہے۔ اس پر ماموں نے امی کو خوب سنائیں ، امی جواب دینا چاہ رہی تھیں کہ میرے بھائی نے ان کو روک دیا۔ ماموں نے نہ تو اپنی بیٹی سے پوچھا کی کیا وجہ ہے۔ نہ ہی کوئی تحقیق کی۔ بلکہ امی کو کہہ دیا کہ اگر میں اس کی شادی کردوں تو آپ لوگ اسکی ذمہ داری اٹھاتے ہیں۔ ہم کیسے ذمہ داری اٹھا سکتے ہہں۔ خیر تو انکار پر بات ختم ہو گئی۔ امی بہت روئیں، میری منت کی کہ میں نے تمھارا بہت وقت ضائیع کیا۔ میں نے کہا کوئی بات نہیں آپ کے لئے ماموں ذیادہ عزیز تھے۔ امی نے کہا کہ اگر میں مر جاؤں تو میرے بھائی کو نہ بتائیں ، نہ وہ مجھے قبر میں اتاریں یہ میری وصیت ہے تم لوگوں کو۔ پوچھنا یہ ہےکہ اس وصیت کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ دوسری بات کہ میں ان کے گھر کبھی نہ جاؤںگی۔ وہ اپنی بیٹی کو دیکھنے آئیں تو آیئں میں ان سے کو ئی بات نہ کروںگی۔ کیا یہ درست ہے؟ اور میری یہ کیفیت ہے کہ میرا دل نہیں چاہتا ان کے گھر کبھی نہ جانے کو کیونکہ اس لڑکی نے بھی تو مجھے دھوکہ دیا۔ اس کے باپ ہمیں یہی جواب دیتے کی شادی کریں گے کریں گے میرا کتنا وقت بھی ضائع کیا۔ مگر میرے سامنے آئیں تو میں سلام تو کرتا ہوں، ہاتھ نہیں ملاتا کہ انہوں نے میری امی کو ہر موقع پر ذہنی اذیتیں دیں۔ کیا میرا یہ عمل درست ہے؟ اور کہ اگر دوسری جگہ میری منگنی اور شادی ہوتی ہے تو میرا دل نہیں چاہتا کہ میرے ماموں کے گھر والے اس میں شریک ہوں۔ کیا کسی بھی صورت میں یہ درست ہے؟ اگر ہم اچھا ہی سلوک کرتے رہیں تو لوگ بھی تو اپنے آپے سے باہر ہوجاتے ہیں ۔ از راہِ خدا بتائی اس ساری صورت حال میں کیا کیا جائے کہ اللہ ناراض نہ ہوجائیں۔ حضرت دل تو بہت خفا ہے پر چاہتا ہوں اللہ اور اسکے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے طریقہ پر ہی عمل کروں۔ جواب جلدی دیجئے گا۔ جزاک اللہ۔

    جواب نمبر: 177462

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 890-663/H=08/1441

    اللہ پاک ناراض نہ ہو جائے یہ جذبہ بہت ہی مبارک اور لائق قدر ہے آپ وقتا فوقتا ماموں سے بذریعہ فون یا ان کے گھر جاکر سلام دعاء کرلیا کریں خیر خیریت معلوم کرتے رہیں کبھی کوئی ہدیہ یا تحفہ پیش کردیا کریں ملاقات ہونے پر مصافحہ بھی کرلیا کریں دل نہ چاہنے کے باوجود نکاح وغیرہ میں دعوت دیدیا کریں ان کے اور ان کے گھر والوں کے حق میں دعاء خیر کا بھی اہتمام جاری رکھیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند