• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 177834

    عنوان: صرف دو شخصوں کی موجودگی میں نکاح کا حکم

    سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں ؟ ایک لڑکا اور ایک لڑکی دونوں کا نکاح ہوا (لڑکے کی عمر ۲۳/ سال اور لڑکی کی عمر ۲۲/ سال ہے) ہے، اس نکاح میں نہ تو والدین موجود تھے اور نہ ہی والدین کو اس نکاح کا علم تھا، اور نکاح میں دو گواہ بھی موجود تھے جن میں سے دوسرے گواہ محمد سہیل نے ہی نکاح پڑھایا ہے۔ دریافت یہ کرنا ہے کہ دوحضرات کی موجودگی جس میں خود ہی نکاح پڑھانے والے دوسرے صاحب گواہ کے طور پر ہیں، نکاح ہوا ہے یا نہیں؟ دو گواہ کے ساتھ ایک وکیل کا ہونا بھی ضروری ہے یا نہیں؟ پہلا گواہ وکیل بھی ہوسکتا ہے یا نہیں؟

    جواب نمبر: 177834

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:799-567/sn=8/1441

    فقہائے کرام نے صراحت کی ہے کہ اگر لڑکی خودمجلسِ نکاح میں موجود ہو تو عقد کی نسبت اس کی طرف ہوتی ہے اگر چہ ایجاب وقبول کے الفاظ کوئی اور کہلائے ،تو صورت مسئولہ میں عاقدین کے علاوہ جو دو حضرات موجود تھے وہ اصولا گواہ قرار پائیں گے اور جو نکاح دو عاقل بالغ مسلمان گواہوں کی موجود گی میں ہو وہ شرعا درست ہوتا ہے ؛لہذا گر مجلس نکاح میں لڑکا اور لڑکی دونوں موجود تھے جیسا کہ مستفتی نے فون پر بتلایا ، نیز دونوں گواہان عاقل بالغ اور مسلمان تھے تو سوال میں جو تفصیل لکھی گئی ہے اس کی روسے صورت مسئولہ میں شرعا نکاح منعقد ہوگیا، واضح رہے کہ عاقدین کی موجوگی میں وکیل کا ہونا ضروری نہیں ہے ۔

    (ولوزوج بنتہ البالغة) العاقلة (بمحضر شاہد واحد جاز إن) کانت ابنتہ (حاضرة) لأنہا تجعل عاقدة (، وإلا لا) الأصل أن الآمر متی حضر جعل مباشرا، ثم إنما تقبل شہادة المأمور إذا لم یذکر أنہ عقدہ لئلا یشہد علی فعل نفسہ....

    (قولہ: ولو زوج بنتہ البالغة العاقلة) کونہا بنتہ غیر قید، فإنہا لووکلت رجلا غیرہ فکذلک کما فی الہندیة....(قولہ: لأنہا تجعل عاقدة) ؛ لانتقال عبارة الوکیل إلیہا، وہی فی المجلس فکانت مباشرة ضرورة ؛ ولأنہ لا یمکن جعلہا شاہدة علی نفسہا.... (قولہ: جعل مباشرا) ؛ لأنہ إذا کان فی المجلس تنتقل العبارة إلیہ کما قدمناہ. [الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 4/ 95، ط: زکریا، دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند