• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 177455

    عنوان: باپ کی ساس یا اپنی سمدھن کی بیٹی سے نکاح کا حکم

    سوال: ایک بیوہ اور اس کی ایک کنواری لڑکی اور ایک رنڈوا اور اس کا کنوارا لڑکا یعنی ایک گھر میں شوہر انتقال کرگیا اور ایک گھر میں بیوی انتقال کرگئی اب واقعہ یہ ہے کہ رنڈوا نے بیوہ کی کنواری لڑکی سے شادی کرلی اور رنڈوا کے بیٹے نے بیوہ سے شادی کر لی جواب طلب ہے کہ شادی ہوئی یا نہیں ؟اور دوسرا جواب یہ مطلوب ہے کہ ان باپ بیٹے کی اولاد آپس میں کیا لگیں گے، کیونکہ باپ کے گھر میں بیوہ کی لڑکی ہے اور بیٹے کے گھر میں بیوہ ہے۔

    جواب نمبر: 177455

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:634-489/N=8/1441

     (۱): اگر کسی شخص نے کسی بیوہ خاتون کی کنواری لڑکی سے نکاح کیا اور دونوں کے درمیان محرمیت کا کوئی رشتہ نہیں ہے تو اس نکاح کے جواز میں کچھ شبہ نہیں۔پھر اُس شخص کے بیٹے نے اپنے باپ کی ساس (یعنی: اُس بیوہ)سے نکاح کیا تو اس نکاح کے جواز میں بھی کچھ شبہ نہیں؛ کیوں کہ باپ کی بیوی کی ماں اگر بیٹے کی نانی نہ ہو تو وہ حرام نہیں ہوتی، اسی طرح بیٹے کی ساس، یعنی: سمدھن سے بھی نکاح ناجائز نہیں ؛ لہٰذا صورت مسئولہ میں دونوں نکاح جائز ہیں۔

    قال الخیر الرملي: ولا تحرم بنت زوج الأم ولا أمہ ولا أم زوجة الأب ولا بنتھا ولا أم زوجة الابن ولا بنتھا ولا زوجة الربیب ولا زوجة الراب اھ (رد المحتار، کتاب النکاح، فصل في المحرمات، ۴: ۱۰۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۸: ۱۰۵، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔

    (۲): موجودہ بیویوں سے دونوں کی اولادیں آپس میں باپ کے رشتے سے چچا، بھتیجے، بھتیجیاں اور ماں کے رشتے سے ماموں بھانجے، بھانجیاں ہوں گی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند