• عبادات >> جمعہ و عیدین

    سوال نمبر: 179150

    عنوان: اگر کوئی شخص ایک جگہ عید کی نماز پڑھاکر دوسری جگہ عید کی نماز پڑھائے تو یہ درست ہے یا نہیں؟

    سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل مسئلے کے بارے میں: (۱) : اگر کوئی شخص ایک جگہ عید کی نماز پڑھاکر دوسری جگہ عید کی نماز پڑھائے تو یہ درست ہے یا نہیں؟ اور دوسر ی جماعت کے مقتدیوں کی نماز عید ہوگی یا نہیں؟ (۲): بعض حضرات شامی کے درج ذیل جزئیہ کی بنا پر جواز کے قائل ہیں، کیا یہ صحیح ہے؟ صلی العشاء والوتر والتراویح ثم أم قوماً آخرین في التراویح ونوی الإمامة کرہ لہ ذٰلک ولا یکرہ للمأمومین (رد المحتار، کتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، ۲: ۵۰۱، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔ ولا یکرہ للمأمومینسے معلوم ہوا کہ دوسری جماعت کے مقتدیوں کی تراویح ہوجائے گی؛ لہٰذا نماز عید بھی ہوجائے گی۔

    جواب نمبر: 179150

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:789-117T/N=9/1441

     (۱):ایک جگہ عید کی نماز پڑھ کر یا پڑھاکر دوسری جگہ عید کی نماز پڑھانا درست نہیں؛ کیوں کہ جب کوئی شخص ایک بار عید کی نماز پڑھ چکا یا پڑھاچکا تو اُس کی دوسری نماز نفل ہوگی۔ اور جس طرح فرض پڑھنے والوں کی اقتدا ، نفل پڑھنے والے کے پیچھے درست نہیں ہوتی، اسی طرح واجب (نماز) پڑھنے والوں کی بھی اقتدا، نفل پڑھنے والے کے پیچھے درست نہیں ہوتی؛ لہٰذا دوسری نماز میں شریک ہونے والوں کی نماز عید نہ ہوگی۔

    فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے:

    سوال: زید نے دو جگہ عید کی نماز پڑھائی تو ان دونوں میں سے کون سی ہوئی؟

    الجواب: زید عیدین یا جمعہ کی نماز دو دفعہ نہیں پڑھاسکتا، اگر ایسا کیا تو پچھلے مقتدیوں کی نماز نہیں ہوئی؛ کیوں کہ امام کی دوسری نماز نفل ہوئی اور متنفل کے پیچھے مفترض یا واجب پڑھنے والوں کی نماز نہیں ہوتی۔ (فتاوی دار العلوم دیوبند، ۵: ۲۲۴، ۲۲۵، سوال: ۲۶۸۷/۱، مطبوعہ: مکتبہ دار العلوم دیوبند)۔

    اور فتاوی محمودیہ میں بھی ہے کہ کوئی شخص دو جگہ نماز عید نہیں پڑھاسکتا اور اگر کسی نے پڑھائی تو دوسری جماعت کے مقتدیوں کی نماز عید صحیح نہ ہوگی (فتاوی محمودیہ، ۸: ۴۳۴، ۴۳۶، جواب سوال: ۳۹۱۴، ۳۹۱۶، مطبوعہ: ادارہ صدیق، ڈابھیل)۔

    (و) لا- یصح- (مفترض بمتنفل) …وصح أن معاذاً کان یصلي مع النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم نفلاً وبقومہ فرضاً، (و) لا (ناذر) بمتنفل (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب الإمامة، ۲: ۳۲۴، ۳۲۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ط: ۳: ۵۹۴- ۵۹۶، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔

    قولہ: ”وصح أن معاذاً الخ“: أي: صح عند أئمتنا وترجح … وھو ما فی الصحیحین:” أن معاذاً کان یصلي مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عشاء الآخرة ثم یرجع إلی قومہ فیصلي بھم تلک الصلاة“،……قال الإمام القرطبي فی المفھم: الحدیث یدل علی أن صلاة معاذ مع النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کانت نافلة، وکانت صلاتہ بقومہ ھي الفریضة، وتمامہ في حاشیة نوح أفندي وفتح القدیر (رد المحتار)۔

    قولہ: ”ولا ناذر بمتنفل“: لأن النذر واجب، فیلزم بناء القوي علی الضعیف،ح (المصدر السابق)۔

    ومصلیا رکعتي الطواف کالناذرین؛ لأن طواف ھذا غیر طواف الآخر، وھو السبب فھو اقتداء الواجب بالنفل (وذا لا یجوز) (البحر الرائق، کتاب الصلاة، باب الإمامة، ۱: ۶۳۲، ط: دار الکتب العلمیة، بیروت)۔

    (۲):دوسری نماز عید کے جواز پر استدلال کے لیے تراویح کا یہ جزئیہ پیش کرنا صحیح نہیں؛ کیوں کہ یہ جزئیہ درمختار وشامی میں ”۴/ سے زائد مقتدیوں کے ساتھ نفل باجماعت کی کراہت“ کے ذیل میں ذکر کیا گیا ہے ؛ اس لیے اس جزئیہ میں ولا یکرہ للمأمومینکا یہ مطلب نہیں ہے کہ دوسری جماعت کے مقتدیوں کی نماز تراویح درست ہوگی؛ بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ یہ نفل باجماعت مقتدیوں کے حق میں مکروہ نہ ہوگی؛ کیوں کہ انہوں نے (مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے)تراویح کی نیت سے اقتدا کی ہے، نفل محض کی نیت سے نہیں اگرچہ ان کی یہ اقتدا بہ حیثیت تراویح درست نہیں؛ اسی لیے اگر امام نے امامت کی نیت نہ کی ہو؛ بلکہ اپنے طور پر نفل نماز شروع کی ہو اور کچھ لوگوں نے (لاعلمی میں )تراویح کی نیت سے اقتدا کرلی ہو تو اس صورت میں یہ نفل باجماعت، امام اور مقتدی کسی کے حق میں بھی مکروہ نہ ہوگی۔

    پس اس جزئیہ کا تعلق نفل باجماعت کی کراہت یا عدم کراہت سے ہے، متنفل کی اقتدا میں تراویح کی صحت سے نہیں ہے جیسا کہ در مختار وشامی کا سیاق وسباق اسی پر دلالت کرتا ہے؛ لہٰذا اس جزئیے سے متنفل کی اقتدا میں تراویح یا نماز عید کی صحت پر استدلال بے محل ہے۔

    اور اگر زبردستی اس کا تعلق متنفل کی اقتدا میں تراویح کی صحت سے مان لیا جائے تو یہ مرجوح اور غیر مفتی بہ قول پر مبنی ہوگا۔

    تفصیل یہ ہے کہ اگر کوئی امام دو الگ الگ مسجدوں میں پوری پوری تراویح پڑھائے تو اس میں مشائخ کا اختلاف ہے، امام ابوبکر اسکافنے فرمایا کہ جائز نہیں۔ اور یہ بھی فرمایا کہ میں نے ابونصر سے سنا کہ دونوں مسجد والوں کی تراویح درست ہوگی۔ اور فقیہ ابو اللیث سمرقندینے ابو بکر اسکافکا قول اختیار فرمایا (فتاوی تاتار خانیہ، فتاوی خانیہ اور محیط برہانی وغیرہ میں اسی طرح ہے)، معلوم ہواکہ ابو اللیث سمرقندیکے نزدیک ابو نصرکا قول مرجوح ہے۔ اور فتاوی عالمگیری میں مضمرات سے اور مضمرات میں نصاب الفقہ سے بہ صراحت نقل کیا گیا ہے کہ فتوی عدم جواز پر ہے؛ اسی لیے بعض فقہا نے صرف عدم جواز کا قول نقل فرمایا ہے، جواز کا قول نقل ہی نہیں فرمایا، جیسے: علامہ طاہر بن عبد الرشید بخاری(خلاصة الفتاوی) اور علامہ ابن نجیم مصری(البحر الرائق) وغیرہ۔ پس معلوم ہوا کہ راجح ومفتی بہ قول کے مطابق ایک شخص کا دو الگ الگ جگہ پوری پوری تراویح پڑھانا درست نہیں، اس صورت میں دوسری جماعت کے مقتدیوں کی تراویح درست نہ ہوگی ؛ البتہ اگر کوئی شخص دوسری جگہ مقتدی کی حیثیت سے شرکت کرے تو اس میں کچھ حرج نہیں ۔

    پس جب سوال کا جزئیہ، مرجوح قول پر مبنی ہے تو اس سے متنفل کی اقتدا میں تراویح یا نماز عید کی صحت پر استدلال کیسے درست ہوسکتا ہے؟

    (ولا یصلی الوتر) و لا (التطوع بجماعة خارج رمضان) أي: یکرہ ذلک لو علی سبیل التداعي بأن یقتدي أربعة کما في الدرر، ولا خلاف في صحة الاقتداء؛ إذ لا مانع، نھر۔ وفي الأشباہ عن البزازیة: ”یکرہ الاقتداء في صلاة رغائب وبراء ة وقدر إلا إذا قال: نذرت کذا رکعة بھذا الإمام جماعة“ اھ۔ قلت: وتتمة عبارة البزازیة من الإمامة: ”ولا ینبغي أن یتکلف کل ھذا التکلف لأمر مکروہ“، وفي التتارخانیة: ” لو لم ینو الإمامة لا کراھة علی الإمام“، فلیحفظ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، ۲: ۵۰۰، ۵۰۱، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۴: ۳۷۵-۳۷۹، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔

    قولہ: ”في التاترخانیة الخ“: عبارتھا نقلاً عن المحیط: وذکر القاضي الإمام أبو علي النسفيفیمن صلی العشاء والوتر والتراویح ثم أم قوماً آخرین في التراویح ونوی الإمامة کرہ لہ ذٰلک ولا یکرہ للمأمومین، ولو لم ینو الإمامة وشرع في الصلاة فاقتدی الناس بہ لم یکرہ لواحد منھما اھ (رد المحتار)۔

    ولو أن إماماً یصلي التراویح في مسجدین، في کل مسجد علی الکمال، لا یجوز، ھکذا حکي عن الشیخ الإمام أبي بکر الإسکاف، ثم قال أبو بکر: سمع أبا نصر: یجوز لأھل کلا المسجدین۔ قال الشیخ الإمام أبو اللیث رحمہ اللہ: قول أبي بکر أحب إلي۔…… وذکر القاضي الإمام أبو علي النسفي فیمن صلی العشاء والتراویح والوتر في منزلہ، ثم أم قوماً آخرین في التراویح ونوی الإمامة کرہ لہ ذٰلک ولا یکرہ للمأمومین، ولو لم ینو الإمامة وشرع في الصلاة فاقتدی بہ الناس لم یکرہ لواحد منھما (الفتاوی التاتارخانیة، کتاب الصلاة، الفصل الثالث عشر في التراویح، ۲: ۳۲۱، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

    ولو أن إماماً یصلي التراویح في مسجدین، في کل مسجد علی الکمال، لا یجوز، ھکذا حکي عن الشیخ الإمام الفقیہ أبي بکر الإسکاف، ثم قال أبو بکر: سمعت أبا نصر یقول: یجوز لأھل کلا المسجدین۔ قال الشیخ الإمام الفقیہ أبو اللیث رحمہ اللہ: قول أبي بکر أحب إلي، وذکر القاضي الإمام أبو علي النسفي فیمن صلی العشاء والتراویح والوتر في منزلہ، ثم أم قوماً آخرین في التراویح ونوی الإمامة کرہ لہ ذٰلک ولایکرہ للمأمومین، ولو لم ینو الإمامة وشرع في الصلاة فاقتدی الناس بہ لم یکرہ لواحد منھما (المحیط البرھاني، کتاب الصلاة، الفصل الثالث عشر في التراویح والوتر، ۲: ۲۵۱، ۲۵۲، ط: إدارة القرآن والعلوم الإسلامیة، کراتشي)۔

    ولو صلی إمام واحد التراویح في مسجدین کل مسجد علی الکمال، اختلف المشایخ فیہ، حکي عن أبي بکر الإسکاف رحمہ اللہ تعالی أنہ لا یجوز، قال أبو بکر: سمعت أبا نصر أنہ قال: یجوز لأھل المسجدین جمیعاً ……واختار الفقیہ أبو اللیث قول أبي بکر رحمہ اللہ، ھذا إذا أم للناس مرتین، فإن لم یکن إماماً وصلی التراویح في مسجد بجماعة ثم أدرک جماعة أخری في مسجد آخر فدخل معھم وصلی لا بأس بہ (الفتاوی الخانیة علی ھامش الفتاوی الھندیة، کتاب الصلاة، باب التراویح، ۱: ۲۳۳، ۲۳۴، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)۔

    إمام یصلي التراویح في مسجدین، في کل مسجد علی الکمال، لا یجوز کذا في محیط السرخسي، والفتوی علی ذلک کذا في المضمرات (الفتاوی الھندیة، کتاب الصلاة، الباب التاسع في النوافل، فصل في التراویح، ۱: ۱۱۶، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)۔

    في نصاب الفقہ: ولو صلی الإمام التراویح في المسجدین علی الکمال لا یجوز لہ أن یفعل؛ لأن التراویح سنة وسائر السنن لا یتکرر في الوقت الواحد، فإذا فعل ذلک لا یکون سنة، والفتوی علی ذلک۔ ولو صلی الإمام التراویح في مسجدہ، ثم اقتدی في مسجد آخر لا یکرہ، وکذلک الفتوی؛ لأنہ یکون اقتداء المتطوع بمن یصلي السنة، فیجوز (جامع المضمرات والمشکلات في شرح مختصر الإمام القدوري، ۲: ۲۱۲، ط: دار الکتب العلمیة، بیروت)۔

    إمام یصلي التراویح في مسجدین، في کل مسجد علی وجہ الکمال، لا یجوز؛ لأنہ لا یتکرر۔ اقتدی بالإمام في التراویح وھو قد صلی مرة لا بأس بہ، ویکون ھذا اقتداء المتطوع بمن یصلي السنة (خلاصة الفتاوی، کتاب الصلاة، الفصل الثالث في التراویح، ۱: ۶۴، ط: المکتبة الأشرفیة، دیوبند)، ونقلہ عنہ ابن نجیم في البحر الرائق (کتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، ۲: ۱۲۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند