• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 330

    عنوان:

    اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو قتل کرتا ہو، تو اس کی تقدیر میں لکھا ہوا تھا کہ وہ یہ عمل انجام دے گا۔ تو اللہ تعالی اس کو سزا کیوں دیں گے؟

    سوال:

    میں آپ سے تقدیر کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں۔ اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو قتل کرتا ہو، تو اس کی تقدیر میں لکھا ہوا تھا کہ وہ یہ عمل انجام دے گا۔ تو اللہ تعالی اس کو سزا کیوں دیں گے؟

    جواب نمبر: 330

    بسم الله الرحمن الرحيم

    (فتوى: 57/د=57/د)

     

    (الف) اللہ تعالیٰ کا علم ازلی ہے اور جمیع ماکان و مایکون سے متعلق ہے اس لیے جو کچھ ہوچکا یا ہورہا ہے یا ہونے والا ہے، سب چیزوں کا اللہ تعالیٰ کو علم ہے اور اسی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے بندوں کی تقدیریں لکھ دی ہیں، ارشاد ہے: جف القلم بما أنت لاق (مشکوٰة) جو کچھ تم کو پیش آنے والا ہے تقدیر کا قلم اس کو لکھ کر خشک ہوچکا ہے۔

     

    (ب)    بندہ کو اللہ تعالیٰ نے صحیح اورغلط کی تمیز کرنے کے لیے عقل سلیم عطا فرمائی ہے ، ارشاد ہے: کل مولود یولد علی الفطرة (مشکوٰة) ہرپیدا ہونے والا بچہ فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے اس کو عقل سلیم عطا ہوتی ہے پھر ماحول و تربیت کے اثرات سے متأثر ہوکر آدمی کی عقل میں کجی پیدا ہوتی ہے۔

     

    (ج)     اللہ تعالیٰ نے ہدایت و ضلالت کا راستہ سجھانے کے لیے حضرات انبیائے کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا، ارشاد ہے : وَہَدَیْنَاہُ النَّجْدَیْنِ۔ ہم نے انسان کو بواسطہ انبیاء ہدایت و ضلالت کے دونوں راستے بتلادیئے، اوراچھے کام کے کرنے پر اجر و ثواب کا وعدہ فرمایا او ربرے کاموں کے کرنے پر عذاب و سزا مقرر کی ہے۔

     

    (د)      پھر انسان کو مجبور محض نہیں پیدا کیا ہے بلکہ اس کو اختیار دیا ہے کہ عقل کے فیصلہ اور نبی کی بتلائی ہوئی ہدایت سے جس اچھے کام کو کرنا چاہے وہ اپنے اختیار سے کرسکتا ہے۔ اجر و ثواب یا سزا و عذاب اسی اختیارسے جڑا ہوا ہے، یعنی بندہ جب اپنے ارادہ و اختیار سے اچھا کام کرتا ہے تو ثواب کا مستحق ہوتا ہے اور جب برے کام اپنے ارادہ و اختیار سے کرتا ہے تو سزا کا مستحق ٹھہرتا ہے تو بندہ جو کچھ اپنے ارادہ و اختیار سے کرتا ہے اللہ تعالیٰ کو اپنے علم ازلی کی بنا پر اس کا علم ہے اور تقدیر میں لکھا ہوا ہے۔ اور جزا و سزا کا تعلق بندہ کے ارادہ و اختیار کے ساتھ ہے۔ یعنی بندہ اپنے ارادہ و اختیار سے کوئی کام کرتا ہے تو اس کے پیدا ہونے والے نتائج کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔

     

    تقدیر کے مسئلہ میں زیادہ خوض کرنے سے منع کیا گیا ہے جب اس طرح کے خیالات و و ساوس ذہن کو پریشان کریں، تو اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، اللہ اکبر پڑھ لیا کریں۔

     

    بندہ نے قتل کے اسباب کو اپنے ارادہ و اختیار سے انجام دیا ہے اس لیے دنیا و آخرت میں اس کے نتائج کا وہ ذمہ دار ٹھہرتا ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند