عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد
سوال نمبر: 169353
جواب نمبر: 169353
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 641-552/D=07/1440
اگر متعین طور پر معلوم ہو کہ فلاں چیز فلاں آدمی کی چوری کرکے کھلائی گئی تب تو جس قدر چیز کھائی ہے اس کی قیمت اصل مالک کو پہونچائے، اور اگر بعینہوہ چیز نہیں کھلائی گئی یا مالک کا علم نہیں تو لاعلمی میں کھانے والے پر صرف توبہ استغفار لازم ہے مثلاً موبائل چرا کر اس کی قیمت سے دعوت کی گئی تو لاعلمی میں کھانے والے پر صرف توبہ استغفار لازم ہے۔ قال العلامة الحکفي: وفي الأشباہ: الحرمة تنتقل مع العلم وقال ابن عابدین نقلاً عن الشیخ عبد الوہاب الشعراني في کتاب المتن: وما نقل عن بعض الحنفیة من أن الحرام لایتعدّی إلی ذمتین سألت عنہ الشہاب ابن الشبلی فقال: ہو محمول علی ما إذا لم یعلم بذلک ، أما من رأی المکاس یأخذ من أحد شیئاً من المکس ثم یعطیہ آخر ثم یأخذہ من ذلک الآخر فہو حرام ۔ الدر مع الرد، کتاب الحظر والإباحة ، باب الاستبراء وغیرہ ، ۹/۵۵۳، ۵۵۴، ط: زکریا دیوبند) وفی الہندیة: أہدی إلی رجل شیئاً أو أضافہ إن کان غالب مالہ من الحلال فلا بأس إلا أن یعلم بأنہ حرام، فإن کان الغالب ہو الحرام ینبغي أن لایقبل الہدیة ولا یأکل الطعام إلا أن یخبرہ بأنہ حلال ۔ (الہندیة ، کتاب الکراہیة ، الباب الثامن عشر في الہدایا والضیافات ، ۵/۳۹۶، اتحاد) ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند