• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 176725

    عنوان: بینک کی نوکری کے ذریعہ کمائی ہوئی رقم پر زکاة كا حكم؟

    سوال: (۱) کیا بینک میں فکس ڈپوزٹ کرنا جائز ہے؟ (۲) اگر کسی نے پانچ سال کے لیے فکس ڈپوزٹ کروایا ہے تو کیا اس کو ہر سال فکس ڈپوزٹ کی ہوئی رقم پر زکاة دینا ہوگی؟ (۳) کیا بینک میں منیجر یا کلرک نوکری کرنا جائز ہے؟ (۴) اگر بینک میں منیجر کی نوکری کرنا جائز نہیں ہے ، پھر بھی کوئی بینک منیجر کی نوکری کرتاہے تو کیا اس کو بینک کی نوکری کے ذریعہ کمائی ہوئی رقم پر زکاة دینا ہوگی؟

    جواب نمبر: 176725

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 542-448/D=07/1441

    (۱) فکس ڈپوزٹ ایک سودی معاملہ ہے اس کا کرنا ناجائز اور حرام ہے اپنی اصل جمع کردہ رقم سے زاید جو ملے گا اسے غرباء مساکین پر صدقہ کرنا واجب ہے۔

    (۲) جی ہاں اپنی اصل جمع کردہ رقم پر ہر سال زکاة ادا کرنی ہوگی یا رقم وصول ہونے کے بعد پچھلے سالوں کی زکاة ادا کریں۔

    (۳) بینک میں سودی لین دین کی لکھا پڑھی کرنا یا اس کے کاغذات پر بحیثیت گواہ یا مصدِّق دستخط کرنا بھی گناہ ہے۔ پس اس کام کی نوکری گناہ میں تعاون ہوگا۔

    (۴) گناہ کے کام یعنی سودی لین دین کی لکھا پڑھی یا اس کی گواہی یا تصدیق کے مقابلہ میں جو تنخواہ ہوگی اس کا صدقہ کرنا واجب ہے جب تک تنخواہ کی رقم سے واجب التصدق رقم کو علیحدہ نہ کیا ہو تو مخلوط رقم ہونے کی صورت میں پوری رقم کی زکاة ادا کرنا لازم ہوگا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند