• عقائد و ایمانیات >> بدعات و رسوم

    سوال نمبر: 29582

    عنوان: سوال یہ ہے کہ دیوبند کے ایک عالم کے ایک نسخہ میں پڑھا ہے جس میں لکھا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام آنے پر انگوٹھی چومنے کی جو حدیث ہے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ہے، موضوع ہے، یہ عمل بدعت ہے۔ میں نے سناہے کہ علامہ شامی نے در مختار میں اس عمل کو مستحب لکھا ہے۔ جو عمل مستحب ہو وہ بدعت کیسے ہوسکتاہے ۔ براہ کرم، اس مسئلہ کو ذرا تفصیل سے سمجھائیں، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کاعمل اور درمختار میں جو لکھا ہے۔ 

    سوال: سوال یہ ہے کہ دیوبند کے ایک عالم کے ایک نسخہ میں پڑھا ہے جس میں لکھا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام آنے پر انگوٹھی چومنے کی جو حدیث ہے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ہے، موضوع ہے، یہ عمل بدعت ہے۔ میں نے سناہے کہ علامہ شامی نے در مختار میں اس عمل کو مستحب لکھا ہے۔ جو عمل مستحب ہو وہ بدعت کیسے ہوسکتاہے ۔ براہ کرم، اس مسئلہ کو ذرا تفصیل سے سمجھائیں، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کاعمل اور درمختار میں جو لکھا ہے۔ 

    جواب نمبر: 29582

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(د): 355=107-3/1432

    دیوبند کے عالم نے اپنے نسخے میں انگوٹھا چومنے کے بارے میں مروی روایت سے متعلق کیا بات لکھی ہے اسے کتاب کا نام اور صفحہ نمبر کے ساتھ لکھیں، البتہ ایک قدیم بڑے محدث علامہ طاہر پٹنی نے اس حدیث کو ”تذکرة الموضوعات، ص:۱/۳۶“ کے ضمن میں لکھا ہے، نیز حدیث کی عدم صحت کے ساتھ ساتھ صحابہٴ کرام اور تابعین عظام کے زمانے میں اس پر عمل کا ثبوت نہیں ملتا؛ اس لیے انگوٹھا نہ چومنے میں ہی احتیاط ہے؛ بلکہ اذان کے دوران، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند کے منقول کلمات کو دہرانا چاہیے، پھر اگر مذکورہ بالا حدیث کی صحت اور تعامل سے قطع نظر بھی کرلیا جائے تب بھی یہاں دو باتیں قابل لحاظ ہیں: (۱) ان روایات میں یہ عمل بہ طور علاج وحفاظت رمد (آشوبِ چشم) کے لیے آیا ہے، چناں چہ المقاصد الحسنہ للسخاوی میں کئی ایک روایت میں ”لم تَرمد عینہ“ مذکور ہے (یعنی جو اس طرح کرے گا، اسے آشوبِ چشم کی بیماری لاحق نہ ہوگی) اورعلاج ایک امر دنیوی ہے، اس میں کوئی فضیلت وغیرہ نہیں اور اب لوگ اس کو ثواب وتعظیم نبوی جو کہ امر دینی ہے، سمجھ کر کرتے ہیں اور تداوی کو عبادت سمجھنا بدعت ہے؛ اس لیے اس اعتقاد سے یہ بدعت ہوگا۔ (۲) انگوٹھا چومنے والے اس کا التزام عملی واعتقادی کرتے ہیں اور تارک کو مطعون سمجھتے ہیں؛ اس لیے اگر ان روایتوں کو فضیلت پر بھی محمول کرلیں تب بھی یہ عمل ثانی الذکر وجہ کی بنا پر بدعت ہوگا، رہی علامہ شامی کی بات تو انھوں نے اسے ”سنت“ نہیں کہا؛ بلکہ مستحب لکھا ہے اور یہ اس صورت پر محمول ہے جب التزامِ عملی یا اعتقادی نہ ہو، اور یہ بھی احتمال ہے کہ انھوں نے بہ طور علاج ایسا کرنے کو پسند فرمایا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند