عقائد و ایمانیات >> بدعات و رسوم
سوال نمبر: 162800
جواب نمبر: 162800
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:1175-1200/M=12/1439
جس کام کی کوئی اصل قرون ثلاثہ مشہود لہا بالخیر میں موجود نہ ہو یعنی جس کام کو ضرورت داعی ہونے کے باوجود عہد رسالت، عہد صحابہ اور تابعین وتبع تابعین میں نہ کیا گیا ہو اور بعد میں اس کام کو دین وثواب سمجھ کر اختیار کیا جائے، وہ کام بدعت ہے لیکن جس کی اصل یا نظیر قرون ثلاثہ میں موجود ہو یا جس کام کو دین وشریعت سمجھ کر نہ کیا جائے اور وہ نصوص شرع کے خلاف بھی نہ ہو تو اس کو بدعت کہنا صحیح نہیں، پہلے قرآن کے ترجمہ کی ضرورت نہیں تھی، بعد میں علماء نے اس کی ضرورت محسوس کی اس لیے ترجمے لکھے گئے، جمعہ کی نماز سے پہلے وعظ کہنا یہ بعض صحابی سے ثابت ہے، مسجد میں محراب ومینار بنانے کا بھی عملاً توارث ہے، رمضان میں تراویح کے بعد خلاصہٴ تراویح بیان کرنے میں حرج نہیں، جو کام شرعاً ناجائز اور حرام نہیں ہے بلکہ فی نفسہ جائز اور مباح ہے اس کے لیے کسی حدیث سے ثا صحابی کے عمل سے ثبوت کی ضرورت نہیں ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند