عقائد و ایمانیات >> بدعات و رسوم
سوال نمبر: 157462
جواب نمبر: 157462
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:314-271/M=4/1439
(۱،۲) بارات کی شرعاً کوئی اصل نہیں، اور نہ سنت سے اس کا ثبوت ہے۔ آج کل بارات کے نام سے ایک بڑی تعداد دلہن کے گھر جاتی ہے اور تعداد کا کم ہونا ذلت ورسوائی سمجھی جاتی ہے یہ طریقہ شرعاً قابل مذمت اور ناپسندیدہ ہے، نام ونمود اور اسراف سے بچتے ہوئے چند لوگ لڑکے کے ساتھ چلے جائیں اور نکاح میں شریک ہوجائیں اور پھر لڑکی کو رخصت کراکے ساتھ میں سب لوگ آجائیں تو اس میں مضائقہ نہیں، لڑکے والے کو بارات کی مروجہ شکل پر اصرار نہیں کرنا چاہیے اور جو بارات مروجہ رسومات پر مشتمل ہو اس میں شرکت نہ کرنی چاہیے، لڑکی والے اگر مجبوری میں بارات والوں کے کھانے پینے کا نظم کریں تو ان کے لیے گناہ نہیں اور بارات کا کھانا واجب یا سنت تو نہیں لیکن ناجائز بھی نہیں، اگر رسومات وتکلفات سے خالی ہو تو محض مباح ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند