• عقائد و ایمانیات >> بدعات و رسوم

    سوال نمبر: 157462

    عنوان: برات کی شرعی حیثیت

    سوال: میرا سوال یہ ہے کہ ہمارے ہندوستانی معاشرہ میں غیر قوم سے اختلاط کی بناء پر برات کا عام رواج ہے جبکہ اسلام میں فقط نکاح اور ولیمہ ہی رائج ہے ، تو برات کی شریعت میں اجازت ہے یا نہیں؟ (۲)اگر لڑکے والے برات کے ساتھ شادی کریں یا لڑکی والے اسکا انتظام کریں تو کیا وہ بدعت کے مرتکب اور گناہگار ہوں گے ؟ اگر کوئی شخص ان براتوں میں لڑکے یا لڑکی والوں کی طرف سے شریک ہوگا تو کیا وہ گناہگار یا بدعت کا معاون ہوگا ؟ اگر ان براتوں کو لگانے یا ان میں شرکت کی اجازت ہو تو کیا ان میں کھانے کا انتظام رکھنا بدعت یا گناہ ہے اور اس کھانے کو کھانے کا کیا حکم ہے ؟ براہ کرم تمام سوالات کے تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔

    جواب نمبر: 157462

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:314-271/M=4/1439

    (۱،۲) بارات کی شرعاً کوئی اصل نہیں، اور نہ سنت سے اس کا ثبوت ہے۔ آج کل بارات کے نام سے ایک بڑی تعداد دلہن کے گھر جاتی ہے اور تعداد کا کم ہونا ذلت ورسوائی سمجھی جاتی ہے یہ طریقہ شرعاً قابل مذمت اور ناپسندیدہ ہے، نام ونمود اور اسراف سے بچتے ہوئے چند لوگ لڑکے کے ساتھ چلے جائیں اور نکاح میں شریک ہوجائیں اور پھر لڑکی کو رخصت کراکے ساتھ میں سب لوگ آجائیں تو اس میں مضائقہ نہیں، لڑکے والے کو بارات کی مروجہ شکل پر اصرار نہیں کرنا چاہیے اور جو بارات مروجہ رسومات پر مشتمل ہو اس میں شرکت نہ کرنی چاہیے، لڑکی والے اگر مجبوری میں بارات والوں کے کھانے پینے کا نظم کریں تو ان کے لیے گناہ نہیں اور بارات کا کھانا واجب یا سنت تو نہیں لیکن ناجائز بھی نہیں، اگر رسومات وتکلفات سے خالی ہو تو محض مباح ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند