• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 177079

    عنوان: بچہ کو گود لینے کی وجہ سے نہ وہ حقیقی بیٹے كی طرح ہوگا اور نہ وارث ؟

    سوال: میں نے تیس /بتیس سال پہلے بغیر کسی کاغذی کارروائی کے ایک بچے کو گود لیاتھا، اس کا نام عبدالرحمن تھا (وجہ یہ تھی کہ اس کی ماں اس دیکھ ریکھ کرنے سے منع کردیا تھا اور اس کو چھوڑ دیاتھا)، میں نے اس کی زندگی میں ہر طرح کی مدد کرنے کے لیے سوچا تھا، اس کو پڑھایا اواس کی شادی بھی کرادی، لیکن کچھ بیس سال دونوں پہلے طلاق دیئے بغیر اپنی مرضی سے علیحدہ ہوگئے، اس کا ایک بیٹا (انعام الحسن) ہے، ان میاں بیوی کی علیحدگی کے بعد وہ بچہ تنہا ہوگیا تھا، تو میں نے اس بچے کی بیس سال سے دیکھ ریکھ کی، اور اس کو پڑھایا، اس نے بی کام کیا ہے اور اب وہ آئی اے ایس کی تیاری کررہاہے اور امتحان دینا چاہتاہے، میرا ایک مکان ہے ، سوال یہ ہے کہ اس جائیداد پر بچے کا کوئی حق ہے؟اور کیا بیس سال کے بعد اس بچے کے والدین اس کی زندگی کے بارے میں فیصلے کرسکتے ہیں؟ جب کہ انہوں نے بچے کی کوئی دیکھ ریکھ نہیں کی اور نہ کوئی ذمہ داری اٹھائی۔ بچے پر کس کا حق ہے ؟ وہ اس وقت ۲۳ کا سال ہے۔ براہ کرم، جواب دیں ۔

    جواب نمبر: 177079

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 593-475/D=07/1441

    جس بچے کو آپ نے گود لیا تھا پھر آپ نے اس کی دیکھ ریکھ کی اور ہرطرح مدد کرتے ہوئے اس کی شادی بھی کردی یہ سارے کام ان شاء اللہ آخرت میں اجر و ثواب کا باعث ہوں گے۔ لیکن کسی بچہ کو گود لینے کی وجہ سے نہ وہ حقیقی بیٹے کی طرح ہوتا ہے نہ ہی وہ وراثت میں حصہ دار بنتا ہے پس آپ نے اسے یا اس کی بیوی کو جو کچھ دے کر مالک بنا دیا وہ تو ان کا ہوگیا لیکن آئندہ آپ کے مال و جائیداد میں ان کا کوئی حق یا حصہ نہیں ہے نہ ہی آپ کی زندگی میں نہ ہی آپ کے انتقال کے بعد۔

    ان زوجین کا جو بچہ آئی، اے، ایس کر رہا ہے بلوغ تک تو اس کی ذمہ داری اس کے والدین پر تھی اب جب کہ وہ بڑا ہوگیا تو خود اپنا ذمہ دار ہوگیا باقی آپ کے بنائے انسانیت اور حسن سلوک اس کے ساتھ کچھ بھلائی کرنا چاہیں تو کوئی حرج نہیں اس کا اجر آپ کو ملے گا۔ اور جو کچھ آپ اسے دے کر مالک بنادیں گے وہ اس کا ہو جائے گا لیکن آپ کے مرنے کے بعد یہ بھی وارث نہ ہوگا؛ البتہ آپ اگر کچھ وصیت کرنا چاہیں تو ایک تہائی (1/3) کی حد تک کر سکتے ہیں۔ حاصل یہ کہ آپ اس بچے کے بارے میں یا اس کے والدین کے بارے میں تعاون کے سلسلہ میں کوئی فیصلہ کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں، آپ کو اختیار ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند