• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 178717

    عنوان: ہاتھوں پر لگانے والا سینیٹایزر کا حکم

    سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے کہ آج کل ہمارے ہاں بعض مساجد میں ہاتھوں پر لگانے والے سینیٹازر رکھے ہوے ہیں جو ہر نمازی مسجد میں داخل ہوتے وقت اپنے ہاتھوں پر ملتے ہیں ہماری تحقیق کے مطابق سینیٹازر میں 60 تا 95 فیصد الکوحل ہوتا ہے توکیا اس حالت میں نماز پڑھنا جائز ہے ؟

    جواب نمبر: 178717

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:893-160T/L=9/1441

    آج کل جو الکحل تیار کیا جاتا ہے وہ بالعموم انگور کھجور وغیرہ سے تیار شدہ نہیں ہوتا بلکہ گنے کا رس ،مختلف دانوں،سبزیات اور کوئلہ وغیرہ سے تیار شدہ ہوتا ہے ، اور اس طرح کا الکحل حضرات شیخین: امام ابوحنیفہاور امام ابو یوسفکے مسلک کے مطابق حرام وناپاک نہیں کذا فی عامة کتب الفقہ والفتاوی۔ لہذاعلاج ومعالجہ کی ضرورت اور عموم بلوی کی وجہ سے اس سے تیار شدہ ادویہ وغیرہ کے استعمال کی گنجائش ہے ،اورمفتی سعید احمد صاحب پالنپوری دامت برکاتہم نے فتاوی دارالعلوم دیوبند جلد اول جدید کے حاشیہ میں تحریر فرمایا ہے کہ ”اب تحقیق یہ آئی ہے کہ اسپرٹ (الکوحل) کیمیکل سے بنائی جاتی ہے ، شرابوں سے نہیں بنائی جاتی پر اگر الکوحل نش آور ہے تو اس کا پینا حرام ہے مگر وہ پاک ہے ، اگر الکوحل بدن پر لگایا گیا تو بدن کا دھونا ضروری نہیں اور عطر وادویہ میں ملایا کیا تو عطر وغیرہ پاک ہیں“۔ (فتاوی دارالعلوم جدید، ج۱: ۴۲۳)لہذامذکورہ بالا صورت میں الکوحل سے تیار شدہ سینیٹایزر کے استعمال کی گنجائش ہوگی اور اس کے استعمال کی وجہ سے ہاتھ کی ناپاکی کا حکم نہ ہوگا۔بدائع الصنائع میں ہے :

    وأما المِزْرُ والجعة والبتع وما یتخذ من السکر والتین ونحو ذلک فیحل شربہ عند أبی حنیفة - رضی اللہ عنہ - قلیلاً کان أو کثیراً مطبوخاً کان أونیًّا ولا یحد شاربہ وإن سکر․ (بدائع الصنائع: ۲۸۶/۴، ط: زکریا) بہشتی زیور کے حاشیے میں ہے : وما عدا ذلک (المسمی بالخمر) من الأشربة فہی فی حکم الثلاثة الأخیرة (عصیر العنب المسمی بالطلاء ونقیع الزبیب ونقیع التمر) فی الحرمة والنجاسة وعند أبی حنیفة وأبی یوسف یحرم منہا القدر المسکر، وأما القدر الغیر المسکر فحلال إلا للّہو وکلہا طاہر ․․․․․․ وظاہر أن الأحوط قول محمد؛ فلذا أفتی المتأخرون بہ سدا لباب الفتنة؛ لکن فی زماننا فقد عارضہ عموم البلوٰی فی شراب یقال لہ اسپریٹ فالأحوط فی زماننا عسی أن یودی إلی الجرأة فی الإثم إذا لم یر الناس منہ خلاصا کما لا یخفی فالأولی أن لا یتعرض للمبتلی بہ بشیء، نعم من قدر علی الاحتراز منہ فلیتحرز ماشاء کما قال العلامة التہانوی، (اختری بہشتی زیور، نواں حصہ ، ص: ۱۰۲، جمادات کا بیان)اور تکملہ فتح الملہم میں ہے :وبہذا تتبین حکم الکحول المسکرة (Alcohals) التی عمت بہا البلوی الیوم فإنہا تستعمل فی کثیر من الأدویة والعطور والمرکبات الأخری فإنہا إن اتخذت من العنب أو التمر فلا سبیل إلی حلتہا أو طہارتہا وإن اتخذت من غیرہما فالأمر فیہا سہلٌ علی مذہب أبی حنیفة رحمہ اللہ ․․․․ وإن معظم الکحول التی تسعمل الیوم فی الأدویة والعطور وغیرہا لا تتخذ من العنب أو التمر، إنما تتخذ من الحبوب أو القشور أو البترول وغیرہ (تکملة فتح الملہم، کتاب الأشربة ج۳ص ۶۰۸، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند/ الہند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند