متفرقات >> حلال و حرام
سوال نمبر: 177763
جواب نمبر: 177763
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:676-539/N=9/1441
الیکشن کے موقع پر امیدوار،لوگوں کو جو مٹھائیاں، پکوڑیاں وغیرہ کھلاتے ہیں، اُن کی دعوت کرتے ہیں یا انھیں کچھ دیتے ویتے ہیں، اِس میں اُن کا مقصد بہ ظاہر ووٹ کے لیے راہ ہموار کرنا ہوتا ہے کہ لوگ انھیں ووٹ دیں،اگرچہ وہ زبان سے اپنے لیے ووٹ نہ مانگیں یا یہ کہہ دیں کہ ووٹ جس کو چاہو دو، اور ووٹ شریعت کی نظر میں بعض پہلووٴں سے شہادت کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور شہادت پر کسی قسم کا کوئی معاوضہ لینا جائز نہیں(جواہر الفقہ جدید، ۵: ۵۳۵، ۵۳۶، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند)؛
اس لیے الیکشن کے موقع پر کسی امیدوار کی کوئی مٹھائی وغیرہ نہیں کھانی چاہیے اور نہ ہی اس طرح کی دعوت میں شریک ہونا چاہیے بالخصوص علما، صلحا، ائمہ مساجد اور اہل مدارس کو، یہ صریح رشوت نہ ہو تو کم از کم اس میں رشوت کا شائبہ ضرور ہے۔
لا للشاھد (أي: لا یجوز أخذ الأجرة للشاھد) (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الشھادات، ۸:۱۷۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۱۷: ۶۷، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔
قال اللّٰہ تعالیٰ:﴿وَاَخْذِہِمْ اَمْوَالَہُمُ النَّاسَ بِالْبَاطِلِ﴾ بالرشوة وسائر الوجوہ المحرمة (مدارک التنزیل وحقائق التأویل، سورة آل عمران، رقم لآیہ: ۴۲، ۱:۲۰۲)۔
وقال تعالی أیضاً في مقام آخر: ﴿سَمّٰعُوْنَ لِلْکَذِبِ اَکّٰلُوْنَ لِلسُّحْتِ﴾ (سورة المائدة، رقم الآیة: ۴۲)۔
اتفق جمیع المتأولین لہٰذہ الآیة علی أن قبول الرشا محرم، واتفقوا علی أنہ من السحت الذي حرمہ اللّٰہ تعالی (أحکام القرآن الکریم للجصاص، سورة المائدة، باب الرشوة، ۴: ۸۵، ط: دار إحیاء التراث العربي، بیروت)۔
من أخذ مال غیرہ لا علی وجہ إذن الشرع، فقد أکلہ بالباطل (الجامع لأحکام القرآن للقرطبي، ۲:۳۲۳، ط: دار إحیاء التراث العربي بیروت)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند