• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 177230

    عنوان: فیصدی کمیشن پر چندے کا حکم

    سوال: جناب مفتی صاحب میرا سوال یہ ہے کہ۔مدرسہ میں پڑھانے والے اساتذہ اگر سال کے بیچ میں گاؤں میں چندہ کریں تو اس کو سو 100، میں سے بیس 20مدرسہ والے کمیشن دیتے ہیں تو اس کو لینا جائز ہے یا نہیں؟ دلیل کے ساتھ ضرور شیئر کریں۔

    جواب نمبر: 177230

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:588-472/N=8/1441

    100/ روپے میں 20/ روپے پر چندہ کرنے کا معاملہ فیصدی کمیشن کی شکل ہے، جو ناجائز ہے ؛ کیوں کہ معاوضہ کے ساتھ چندہ وصول یابی کا معاملہ ، اجارے کی شکل ہے، اور اجارے میں اجرت اور عمل دونوں کا معلوم ومتعین ہونا ضروری ہے،دونوں میں کسی ایک کی بھی جہالت اجارے کو فاسد کردیتی ہے۔ نیزاجیر کے عمل سے حاصل ہونے والی چیز سے اجرت مقرر کرنا بھی جائز نہیں۔ اور فیصدی کمیشن کے چندے میں یہ تینوں خرابیاں پائی جاتی ہیں، یعنی: اس میں اجرت بھی مجہول ہوتی ہے اور عمل بھی۔ اور سفیر کو اجرت، اُس کے وصول کردہ چندے سے دی جاتی ہے؛ اس لیے 100/ روپے میں 20/ روپے پر چندے کامعاملہ درست نہیں۔ چندے کی جائز صورت یہ ہے کہ اوقاتِ کارکردگی کی تعیین کے ساتھ ماہانہ تنخواہ پر سفیرکا تقرر کیا جائے اور سفیر کو چاہیے کہ محنت اور دیانت داری کے ساتھ مفوضہ ذمہ داری انجام دے۔

    وشرطھا کون الأجرة والمنفعة معلومتین؛ لأن جھالتھما تفضي إلی المنازعة (الدر المختار مع رد المحتار،کتاب الإجارة، ۹:۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، (تفسد الإجارة بالشروط المخالفة لمقتضی العقد…)کجھالة مأجور أو أجرة أو مدة أو عمل (المصدر السابق، ص ۶۴)، (ولو دفع غزلا لآخر لینسجہ لہ بنصفہ) أي: بنصف الغزل (أو استأجر بغلا لیحمل طعامہ ببعضہ أو ثورا لیطحن برہ ببعض دقیقہ) فسدت فی الکل؛ لأنہ استأجرہ بجزء من عملہ، والأصل في ذلک نھیہ صلی اللہ علیہ وسلم عن قفیز الطحان (المصدر السابق، ص ۷۸، ۷۹)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند