• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 177379

    عنوان: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی مبارک ایک مشت تھی؟

    سوال: حضرت - سوال نمبر ۱۱۹۸ کے جواب میں آب نے فرمایا "مقدار مسنونہ (ایک مشت) " میرا سوال یہ ہے کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی مبارک ایک مشت تھی؟ یہ بات درست ہے کہ عبداللہ بن عمر رضلله عنہ عمرہ کے وقت تراش کر تقریبا ایک مشت کروا لیا کرتے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ میں سے منع فرمانے کا کوئی ثبوت نہیں۔ ائمہ اربعہ سے بھی ایک مشت کا جواز ملتا ہے۔ میری ناقص عقل ان ثبوت کے مدنظر یہ کہتی ہی کہ ایک کم از کم ایک مشت لازم ہے اور اس سے زاہد بھی افضل میں شمار ہوگا بشرطیکہ قرینے سے رکھی جاےَ اور وضع قطع کے مطابق ہو۔ براے کرم روشنی ڈالیں تاکہ میرا عمل درست کے قریب تر ہو سکے۔ خیر۔

    جواب نمبر: 177379

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 682-69T/M=08/1441

    حضرت مولانا یوسف صاحب لدھیانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ․․․․․․․ ایک قُبضہ (ایک مشت) تک بڑھانے کے وجوب پر تو اجماع ہے، اس سے کم کرنا کسی کے نزدیک بھی جائز نہیں؛ البتہ قبضے سے زیادہ میں اختلاف ہے، بعض کے نزدیک زائد کا کاٹنا مطلقاً ضروری یا مباح ہے، بعض کے نزدیک حج و عمرے کا احرام کھولتے ہوئے حلق و قصر کے بعد قبضے سے زائد کا تراش دینا مستحب ہے، عام حالات میں مستحب نہیں، بعض کے نزدیک اگر ڈاڑھی کے بال اتنے بڑھ جائیں کہ بدنما نظر آنے لگیں تو ان کو تراش دینا ضروری ہے، الغرض اختلاف جو کچھ ہے قبضے سے زائد میں ہے ․․․․․․․․ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی داڑھیاں قبضے سے زائد ہوتی تھیں، البتہ بعض صحابہ مثلاً حضرت ابن عمر ، حضرت عمر اور حضرت ابو ہریرة رضی اللہ عنہم سے قبضے سے زائد کو تراشنے کا عمل منقول ہے اور ترمذی کی روایت میں جس کو ضعیف قرار دیا گیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حج و عمرے کے موقع پر قبضے سے زائد کا تراشنا نقل کیا گیا ہے ․․․․․ (آپ کے مسائل: ۸/۳۰۴) حاصل یہ ہے کہ قبضہ سے زائد کا کاٹنا جائز ہے اور قرینے سے رکھنے میں مضایقہ نہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند