• معاشرت >> ماکولات ومشروبات

    سوال نمبر: 633

    عنوان:

    شرعی لباس کیا ہے؟  کرتا اور پاجامہ شرعی لباس ہے، اس کی دلیل کیا ہے؟ کیا شریعت نے کرتا پاجامہ کو شرعی لباس کہا ہے؟

    سوال:

    (1)  شرعی لباس کیا ہے؟

    (2)   کرتا اور پاجامہ شرعی لباس ہے، اس کی دلیل کیا ہے؟

    (3)  کیا شریعت نے کرتا پاجامہ کو شرعی لباس کہا ہے؟

    والسلام

    جواب نمبر: 633

    بسم الله الرحمن الرحيم

    (فتوى: 230/ل=230/ل)

     

    (1) اسلام نے مسلمانوں کے لئے کوئی خاص قسم کا لباس متعین نہیں کیا ہے بلکہ کچھ قیود بیان کی ہیں ان کوملحوظ رکھتے ہو ئے جو لباس پہنا جائے گا وہ شرعی ہوگا۔ مرد کے لئے ریشم کا لباس کفار وفساق اور متکبرین کے مشابہ لباس، ٹخنوں سے نیچے اور عورتوں سے مشابہ لباس پہننا ممنوع ہے۔ اس طرح کے لباس سے احتیاط ضروری ہے قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم: من لبس الحریر في الدنیا لم یلبسہ في الآخرة (متفق علیہ مشکوة ص373) من تشبہ بقوم فھو منھم (رواہ احمد وابوداؤد ومشکوة: ص375) ما أسفل من الکعبین من الإزار في النار (متفق علیہ مشکوة ص373) لعن اللّہ المتشبھین من الرجال بالنساء (رواہ البخاری مشکوة ص380) البتہ جو لباس سنت سے ثابت ہے یا صلحا نے جس لباس کو اختیار فرمایا اس لباس کا اختیار کرنا یقینا زیادہ افضل ہے مارآہ المسلون حسنا فھو عند اللّہ حسن

    (2) کرتا اور پائجامہ کے شرعی لباس ہونے کی دلیل یہ ہے کہ کرتے کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب نے پہنا ہے، بلکہ کرتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے محبوب لباس تھا۔ حدیث میں ہے عن أم سلمة قالت کان أحب الثیاب إلی رسو ل اللّہ صلی اللّہ علیہ وسلم القمیص (رواہ الترمذی وابوداؤد ومشکوة 376) رہا پائجامہ تو اس کے بارے میں کتب احادیث میں مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پائجامہ خریدا اور اس کو پسند فرمایا ہے، البتہ پہننے کے سلسلے میں احادیث میں اختلاف ہے ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہنا بھی ہے نیز آپ کے اصحاب آپ کی حیات میں آپ کے اذن شریف سے پائجامہ پہنتے تھے، چنانچہ ملا علی قاری لکھتے ہیں: واختلفوا ہل لبس السراویل فجزم بعضھم بعدمہ ولکن صح أنہ صلی اللّہ علیہ وسلم اشتراہ قال ابن القیم: والظاہر أنہ اشتراہ لیلبسہ، و روی أنہ لبسہ و کانوا یلبسونہ في زمانہ وبإذنہ انتہی (جمع الوسائل لملا علي القاری ص: 216)

    (3) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل، اسی طرح وہ عمل جو آپ کی موجودگی میں کیا گیا اور اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکیر نہیں فرمائی، خود دلیل شرعی ہے۔ کسی عمل کے شرعی ہونے کے لیے شارع کی یہ وضاحت ضروری نہیں کہ یہ عمل شرعی ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند