عقائد و ایمانیات >> فرق باطلہ
سوال نمبر: 175187
جواب نمبر: 175187
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 356-37T/M=06/1441
دکاندار کے ذمہ یہ نہیں ہے کہ وہ تحقیق کرے کہ گاہک کا مال حلال ہے یا حرام، ہر ایک سے اپنا سامان فروخت کر سکتا ہے؛ ہاں جہاں یقینی اور قطعی طور پر معلوم ہو جائے کہ گراہک سامان کی قیمت حرام مال سے ادا کر رہا ہے، اور اس کے پاس کوئی جائز ذریعہ آمدنی نہیں ہے تو ایسے شخص سے سامان فروخت کرنے سے دکاندار احتراز کرے، رہی بات بینک ملازم کی تو اس کی کل آمدنی اور کمائی حرام نہیں ہوتی، بینک میں جائز و ناجائز دونوں کام ہوتے ہیں، اب اگر اس کے جائز کام زیادہ ہوں یا حرام کا علم نہ ہو تو اس سے فروخت کرنا جائز ہے؛ البتہ شبہ کی صورت میں احتیاط بہتر ہے۔ قال اللہ تعالی: ولا تتبدّلوا الخبیث بالطّیب (النساء: ۲) أھدی إلی رجل شیئًا أو أضافہ، إن کان غالب مالہ من الحلال فلابأس إلاّ أن یعلم بأنّہ حرام فإن کان الغالب ہو الحرام، ینبغي أن لا یقبل الہدیة ․․․․ ولا یجوز قبول ہدیة أمراء الجور؛ لأنّ الغالب في مالہم الحرمة ، إلاّ إذا علم أنّ اکثر مالہ حلال بأن کان صاحب تجارة أو زرع فلا بأس بہ؛ لأنّ أموال النّاس لا تخلو عن قلیل حرام فالمعتبر الغالب ۔ (الہندیة، کتاب الکراہیة، ۵/۳۹۶، اتحاد دیوبند)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند