• معاشرت >> تعلیم و تربیت

    سوال نمبر: 172491

    عنوان: طلاق ہوجانے كے بعد بچوں كی پرورش كا حق كسے ہے؟ شوہر كو یا بیوی كو؟

    سوال: اگر طلاق ہوجائے تو بچے کو رکھنے کا حق کس کو ہے؟ شوہر یا بیوی کو؟ میں نے ایک بیان میں سنا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو تین ایسے واقعات میں بچوں کو ماں کے حوالے کردیا تھا۔اگر ماں نوکری کررہی ہو اور بچوں کو بآسانی پال سکتی ہے تو اس حوالے سے شریعت کا کہتی ہے؟

    جواب نمبر: 172491

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1032-142T/N=1/1441

     (۱، ۲): شریعت نے ماں کو بچوں کی پرورش کا جو حق دیا ہے، وہ لڑکے میں (چاند کے حساب)سات سال تک اور لڑکی میں نو سال تک ہوتا ہے بہ شرطیکہ اس دوران بچہ کی ماں کسی ایسے شخص سے نکاح کرے، جو بچوں کے حق میں محرم نسبی نہ ہو؛ ورنہ اس کا حق پرورش ختم ہوکر نانی کو ملے گا۔ اور اگر نانی نہ ہو یا وہ ضعف وپیرانہ سالی وجہ سے اس خدمت کے لیے تیار نہ ہو تو بچہ کی پرورش کا حق دادی کو ملے گا۔ اور جب پرورش کی مذکورہ بالا شرعی مدت پوری ہوجائے گی تو باپ کو حق ہوگا کہ وہ بچے کو اپنے پاس رکھے ، اس وقت ماں یا نانی کو بچہ روکنے کا حق نہ ہوگا۔ اور باپ بچے کو اپنے پاس رکھ کر اس کی بہترین تعلیم وتربیت کا نظم کرے گا اور شادی کے لائق ہوجانے پر اس کی شادی کردے گا۔ اور اگر کوئی ماں نوکری کے ساتھ بچے کی صحیح پررورش کرسکتی ہے ، یعنی: نوکری کی وجہ سے بچے کی پرورش پر فرق نہیں پڑے گا تو اُسے نوکری کے ساتھ بھی متعینہ مدت تک بچے کی پرورش کا حق ہوگا۔

    وأما بیان من لہ الحضانة فالحضانة تکون للنساء في وقت وتکون للرجال في وقت، والأصل فیہا النساء؛ لأنہن أشفق وأرفق وأہدی إلی تربیة الصغار، ثم تصرف إلی الرجال؛ لأنہم علی الحمایة والصیانة وإقامة مصالح الصغار أقدر (بدائع الصنائع، ۳: ۴۵۶، ط: مکتبة زکریا دیوبند)،أحق الناس بحضانة الصغیر حال قیام النکاح، أو بعد الفرقة الأم … وإن لم یکن أم تستحق الحضانة بأن کانت غیر أہل للحضانة، أو متزوجة بغیر محرم أو ماتت، فأم الأم أولیٰ، فإن لم یکن للأم أم، فأم الأب أولیٰ ممن سواہا، وإن علت کذا في فتح القدیر،… فإن ماتت أو تزوجت فالأخت لأب وأم الخ (الفتاوی الھندیة، ۱: ۵۴۱،ط:المطبعة الکبری الأمیریة۔ بولاق، مصر)،والحاضنة یسقط حقھا بنکاح غیر محرمہ أي:الصغیر الخ، والحاضنة أما أو غیرہا أحق بہ أي بالغلام حتی یستغنی عن النساء وقدر بسبع، وبہ یفتیٰ؛لأنہ الغالب،……وغیرھما - غیر الأم الجدة- أحق بھا حتی تشتھي وقدر بتسع وبہ یفتی……وعن محمد أن الحکم فی الأم والجدة کذلک وبہ یفتی لکثرة الفساد، زیلعي (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطلاق، باب الحضانة ۵: ۲۶۷،۲۶۸، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قولہ: ”وبہ یفتی“:قال فی البحر بعد نقل تصحیحہ:والحاصل أن الفتوی علی خلاف ظاھر الروایة (رد المحتار)، ولا خیار للولد عندنا مطلقاً ذکراً کان أو أنثی… وھذا قبل البلوغ الخ (الدر المختار مع رد المحتار، ۵:۲۷۰)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند