• متفرقات >> دعاء و استغفار

    سوال نمبر: 177427

    عنوان: میری دعا کبھی بھی قبول نہیں ہوئی

    سوال: میں نے آج تک بچپن سے لے کر اب تک جو بھی دعا مانگی ہے کبھی بھی قبول نہیں ہوئی، میں وظیفے کروں یا رک کر دعا کروں اللہ پاک میری طرف نگاہ کرم کرتے ہی نہیں ہیں۔ براہ کرم، رہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 177427

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:646-102T/SD=7/1441

    آپ نے بہت ہی نامناسب بات لکھی ہے کہ نعوذ باللہ، اللہ تعالی نظر کرم کرتے ہی نہیں ہیں؛ توبہ استغفار کرنا چاہیے ، اللہ تعالی کی طرف سے ہمہ وقت بے شمار نعمتیں ہمارے اوپر برستی رہتی ہیں ، ہم کو شکر گذار بندہ بننا چاہیے ، ایسا لگتا ہے کہ آپ دعا کی حقیقت نہیں سمجھے ہوئے ہیں اور دعا جس طرح مانگنی چاہیے ، اس طرح نہیں مانگتے ہیں، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویلکھتے ہیں : دعا کی حقیقت الله تعالیٰ کے دربار میں درخواست پیش کرنا ہے ، جس طرح حاکم کے یہاں درخواست دیتے ہیں، کم سے کم دعا اُس طرح تو کرنا چاہیے کہ درخواست دینے کے وقت آنکھیں بھی اسی طرف لگی ہوتی ہیں، دل بھی ہمہ تن اُدھر ہی ہوتا ہے ، صورت بھی عاجزوں کی سی بناتے ہیں، اگر زبانی کچھ عرض کرنا ہوتا ہے تو کیسے ادب سے گفتگو کرتے ہیں اور اپنی عرضی منظور ہونے کیلئے پورا زور لگاتے ہیں اور اس کا یقین دلانے کی پوری کوشش کرتے ہیں کہ ہم کو آپ سے پوری امید ہے کہ ہماری درخواست پر پوری توجہ فرمائی جائے گی، پھر بھی اگر عرضی کے موافق حکم نہ ہوا اور حاکم عرضی دینے والے کے سامنے افسوس ظاہر کرے کہ تمہاری مرضی کے موافق تمہارا کام نہ ہوا تو ہم فوراً یہ جواب دیتے ہیں کہ حضور مجھ کو کوئی رنج یا شکایت نہیں ہے ، اس معاملہ میں میری پیروی میں کمی رہ گئی تھی یا قانون ہی دوسرا تھا، حضور نے کچھ کمی نہیں فرمائی اور اگر اس حاجت کی آئندہ بھی ضرورت ہو تو ہم کہتے ہیں کہ مجھ کو نا امیدی نہیں، پھر عرض کرتا رہوں گااور اصلی بات تو یہ ہے کہ مجھ کو حضور کی مہربانی کام ہونے سے زیادہ پیاری چیز ہے ، کام تو خاص وقت یا محدود درجہ کی چیز ہے ، حضور کی مہربانی تو عمر بھر کی اور غیر محدود درجہ کی دولت اور نعمت ہے ،ہم مسلمانوں کو دل سے غور کرنا چاہیے !! دعا مانگنے کے وقت اور دعا مانگنے کے بعد جب اس کا کوئی نتیجہ ظاہر نہیں ہوتا، تو کیا ہم خدا تعالیٰ کے ساتھ ایسا ہی برتاوٴ کرتے ہیں، سوچیں اور شرمائیں، جب ہم یہ برتاوٴ نہیں کرتے تو اپنی دعا کو دعا یعنی درخواست کس منہ سے کہتے ہیں، واقع میں کمی ہماری ہی طرف سے ہے ، ہماری دعا درخواست ہی نہیں ہوتی، جب ہم اس طرح دعا مانگیں گے ، تو پھر دیکھیں کیسی برکت ہوتی ہے اور برکت کا یہ مطلب نہیں کہ جو مانگیں گے ، وہی مل جائے گا، کبھی تو وہی چیز مل جاتی ہے ، جیسے : کوئی آخرت کی چیزیں مانگے ؛ کیونکہ وہ بندہ کے لئے بھلائی ہی بھلائی ہے ؛ البتہ اس میں ایمان اور اطاعت شرط ہے ؛ کیونکہ وہاں کی چیزیں قانوناً اُسی شخص کو مل سکتی ہیں اور کبھی وہ چیز مانگی ہوئی نہیں ملتی ، جیسے : کوئی دنیا کی چیزیں مانگے ؛ کیونکہ وہ بندہ کے لئے کبھی بھلائی ہے ، کبھی برائی، جب اللہ تعالی کے نزدیک بھلائی ہوتی ہے اس کو مِل جاتی ہے اور جب بُرائی ہوتی ہے تو نہیں ملتی، جیسے : باپ بچہ کو پیسہ مانگنے پر کبھی دے دیتا ہے اور کبھی نہیں دیتا جب وہ دیکھتا ہے کہ یہ اس سے ایسی چیز خرید کر کھائے گا جس سے حکیم نے منع کر رکھا ہے ۔ تو برکت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ مانگی ہوئی چیز مل جائے ؛ بلکہ برکت کا مطلب یہ ہے کہ دعا کرنے سے حق تعالیٰ کی توجہ بندہ کی طرف ہوجاتی ہے ، اگر وہ چیز بھی کسی مصلحت سے نہ ملے تو دعا کی برکت سے بندہ کے دل میں تسلّی اور قوت پیدا ہوجاتی ہے اور پریشانی اور کمزوری جاتی رہتی ہے اور یہ اثر حق تعالیٰ کی اس خاص توجہ کا ہوتا ہے جو دعا کرنے سے بندہ کی طرف حق تعالیٰ کو ہوجاتی ہے اور یہی خاص توجہ؛ اجابت اور دعا کی قبولیت کا وہ یقینی درجہ ہے جس کا وعدہ حق تعالیٰ کی طرف سے دُعا کرنے والے کے لئے ہوا ہے اور مانگی ہوئی ضرورت کا عطا فرما دینا یہ اجابت اور قبولیت کا دوسرا درجہ ہے ، اس کو ایک مثال سے سمجھنا چاہیے ،کوئی حکیم سے درخواست کرے کہ میرا علاج فلاں دوا سے کردیجیے ، تو اگر حکیم علاج شروع کردیں، تو یہ سمجھا جائے گا کہ علاج کی منظوری حاصل ہوگئی اور یہی اصل منظوری ہے ، باقی حکیم سے کسی خاص دوا کا مطالبہ ؛ اس کی منظوری حاصل ہوناضروری نہیں ہے ، کبھی حاصل ہوجائے گی اور کبھی نہیں ہوگی، اس بارے میں حکیم مریض کی مصلحت دیکھے گا۔( ماخوذاز حیاة المسلمین ) یہ مضمون تشفی کے لیے کافی ہے ، اس کو بار بار پڑھیں ؛ بلکہ بہتر یہ ہے کہ کسی عالم دین سے سمجھ لیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند