• عقائد و ایمانیات >> دعوت و تبلیغ

    سوال نمبر: 173525

    عنوان: دعوت كا طریقہ كیا ہے‏؟‏ كیا قولی دعوت سب سے افضل ہے؟

    سوال: قابلِ احترام علماء کرام۔ عبد اللہ کہتا ہے کہ دعوت کی اصلا دو قسمیں ہیں۔ اول بلا واسطہ دعوت، دوم بواسطہ دعوت۔ پھر بلا واسطہ دعوت کی دو قسمیں نظر ہیں، ایک قولی، دوسری عملی۔ اور بواسطہ دعوت کی بھی دو قسمیں نظر ہیں، ایک بذریعہ مکلف، دوسری بذریعہ غیر مکلف۔ اس اعتبار سے دعوت کی چار قسمیں بنتی ہیں۔ پہلی قسم بلاواسطہ قولی دعوت۔ قرآنِ کریم میں دعوت دینے کا اصل طریقہ یہی ملتا ہے ۔ چنانچہ انبیاء علیہم السلام اپنی اقوام کو بلاواسطہ خطاب فرماتے تھے ، جیسے سورة الاعراف، سورة ھود، سورة الشعراء، وغیرہ میں حضرات نوح، ھود، صالح، لوط، شعیب علیہم السلام کا تذکرہ ہے ۔ اذ قال لقومہ، یا قوم، وغیرہ کے الفاظ، بلاواسطہ خطاب پر دال ہیں۔ ایسے ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے والد کو خطاب سورة مریم میں، حضرت یوسف علیہ السلام کا جیل میں دو قیدیوں کو خطاب سورة یوسف میں، اور حضرت موسٰی علیہ السلام کا فرعون و بنی اسرائیل کو خطاب، سورة طہ، سورة القصص، سورة ابراہیم، وغیرہ میں مذکور ہیں۔ ایسے ہی اٰل فرعون کے مردِ موٴمن کا اپنی قوم کو خطاب سورة الموٴمن میں، حبیب نجار کا اپنی قوم کو خطاب سورة یس میں، اصحاب الجنتین کے ساتھی کا خطاب سورة الکہف میں، اور جنوں کی جماعت کا خطاب سورة الاحقاف اور سورة الجن میں مذکور ہے ۔ دوسری قسم بلاواسطہ عملی دعوت۔ عبد اللہ اس آیت سے استدلال کرتا ہے ۔ ومن احسن قولا ممن دعا الی اللہ و عمل صالحا۔ اس سے بظاہر ایسے معلوم ہوتا ہے کہ عملِ صالح، قولی دعوت میں معین ہے ، جبکہ اصل قولی دعوت ہی ہے ، لقولہ تعالٰی احسن قولا ممن دعا الی اللہ۔ تیسری قسم دعوت بواسطہ مکلف۔ مکلف میں انسان بھی شامل ہیں اور جن بھی۔ اصل میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم انذار بالقرآن پر مامور تھے ، جیسے کہ سورة الانعام کی آیت ۱۹ سے معلوم ہوتا ہے ۔ لیکن منذر ہونے کے لئے نبی ہونا ضروری نہیں، بلکہ قرآن کا علم ضروری ہے ، جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو وحی کے ذریعے سے ہوا، اور امت کو استماع کے ذریعے سے ۔ چنانچہ سورة الاحقاف میں جنات کی جماعت کے ذکر میں یہی بات ملتی ہے کہ استماعِ قرآن کے بعد منذر بن کر لوٹے ۔ اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا صحابہ رضی اللہ عنہم کو مختلف علاقوں میں بھیجنا بھی اسی قسم میں داخل ہے ۔ اور یہ قسم دراصل بلا واسطہ دعوت کے بہت مشابہ ہے ، کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے نمائندوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نیابت میں بلاواسطہ دعوت دی۔ چوتھی قسم دعوت بواسطہ غیر مکلف۔ عبد اللہ کہتا ہے کہ اس سے اس کی مراد پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے دعوت دینا ہے ۔ اس قسم کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہدہد کے ذریعے سے قومِ سبا کی ملکہ کو خط بھیجا۔ لیکن اس واقعہ میں تین باتیں غور طلب معلوم ہوتی ہیں۔ اول یہ کہ ایک مسلم ملک کے سربراہ نے خط بھیجا۔ دوم یہ کہ ایک غیر مسلم ریاست کے سربراہ کے پاس بھیجا۔ سوم یہ کہ دین کا درد رکھنے والے کے ذریعے بھیجا۔ بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ یہ تینوں شرائط پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا میں نہیں پائی جاتی ہیں۔ اس لئے میڈیا کے ذریعے دعوت اگرچہ نافع ہے ، لیکن ذمہ داری پوری کرنے کے لئے کافی نہیں۔ بندہ کا سوال یہ ہے کہ عبد اللہ نے جو یہ دعوت کی اقسام بیان کی ہیں، اور قولی دعوت کو باقی اقسام پر ترجیح دی ہے ، کیا درست ہے ، یا قابلِ اصلاح؟

    جواب نمبر: 173525

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:61-13T/sn=2/1441

    سوال میں جو تفصیلات لکھی گئی ہیں یہ غیر ضروری موشگافیاں ہیں، اسلام میں دعوت کا کوئی خاص طریقہ متعین نہیں ہے اور نہ ہی بعض طریقوں کو بعض پر من حیث الطریقہ علی الاطلاق فوقیت حاصل ہے، ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے قولا بھی دعوت دی اور عملا بھی،نیز دعوت کے لیے حسب ضرورت خطوط وغیرہ کا بھی سہارا لیا۔ آیت کریمہ لقد کان لکم فی رسول اللہ أسوة حسنة ، اسی طرح حدیث نبوی : من رأی منکرا فاستطاع أن یغیرہ بیدہ فلیغیرہ بیدہ، فإن لم یستطع فبلسانہ، فإن لم یستطع فبقلبہ، وذلک أضعف الإیمان(سنن أبی داود ،رقم: 1140) اسی طرح حدیث نبوی : صلوا کما رأیتمونی أصلی وغیرہ میں اچھی طرح غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی خاص طریقہ مثلا قولی دعوت کو علی الاطلاق فوقیت دینا درست نہیں ہے ؛ بلکہ حسب موقع جو طریقہ زیادہ مفید ہو وہی دوسرے پر فائق رہے گا۔

    رہا پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا تو انھیں بھی حسب ضرورت دعوت کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، بس شرط یہ ہے کہ طریقہ مباح ہو، جاندار کی تصاویر سازی وغیرہ کا ارتکاب نہ کیا جائے ۔ دعوت سے متعلق نصوص کے عموم میں آج کے میڈیا بھی شامل ہوسکتے ہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند