• عقائد و ایمانیات >> دعوت و تبلیغ

    سوال نمبر: 1661

    عنوان:

    کیا عورتوں کو تبلیغ میں جانا چاہیے جب کہ فرض نماز کے لیے مسجد جانا ممنوع ہے؟

    سوال:

    عورت کے لیے منع ہے کہ وہ گھر سے باہر جاکر مسجد میں نماز پڑھے۔ میں نے ایک عالم سے سنا ہے کہ قرآن میں سات سو پچاس بار براہ راست یا بالواسطہ نماز کا حکم دیا گیا ہے۔ جب نماز جیسے فریضہ کے متعلق عورتوں کو یہ حکم ہے کہ وہ گھر میں ادا کریں تو پھر کیوں تبلیغی علماء وغیرہ آج کی عورتوں کو تبلیغی دوروں میں بھیجنے کے سلسلے میں نرمی برتتے ہیں اور اس کو جائز سمجھتے ہیں، جس میں دس عورتوں کے ساتھ ایک مرد ڈرائیور بیٹھتا ہے، جس میں یہ عورتیں اپنے بچوں کو دادی نانی وغیرہ کے پاس چھوڑجاتی ہیں؟ میرا سادہ سوال یہ ہے کہ اگر عورت نماز کے بارے میں جانتی ہو، مسائل زکاة کا ضروری علم رکھتی ہو اور اپنے مطلب کی شرعی باتیں اسے معلوم ہوں تو اس کو تبلیغی جماعت میں جانے کی ضرورت کیا ہے؟ اگر کوئی عورت دینی مسائل نہ بھی جانتی ہو تو اسے تبلیغی جماعت میں جانا چاہیے یا کسی مقامی عالم سے مسائل جاننا چاہیے؟حتی کہ عورتیں شاپنگ کے لیے نکلتی ہیں (جو ایک دنیوی عمل ہے) جیسا کہ تبلیغی صاحبان کہتے ہیں (لہٰذا ان کو تبلیغی ٹور پر ضرور جانا چاہیے)، ایسا کیوں کہ مردوں کی موجودگی میں عورتوں کو جہاد کے لیے نہیں نکلنا ہے اور تبلیغ کے لیے جانا ہے۔ امید کہ میرا سوال سمجھ گئے ہوں گے۔ قرآن و حدیث سے تفصیلی جواب سے نوازیں۔

    جواب نمبر: 1661

    بسم الله الرحمن الرحيم

    (فتوى: 150/د = 150/د)

     

    (۱) جی ہاں حدیث میں آیا ہے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عورت کا کوٹھری میں نماز پڑھنا بہتر ہے کمرہ میں نماز پڑھنے سے اور کونے کنارے میں نماز پڑھنا کوٹھری میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔ عورت کو تستر (پردہ) کا حکم دیا گیا ہے اور فرمایا گیا ہے: وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ اپنے گھروں میں ٹھہری رہو۔ اس لیے عورت کو بدون ضروت شرعیہ طبعیہ کے باہر نکلنا جائز نہیں ہے، اسی لیے جماعت سے نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں آنے کی اجازت نہیں دی گئی اور جہاد کی فرضیت ساقط کردی گئی، عورتوں کی اولین ذمہ داری اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کرنا اور ان کو دینی باتیں سکھانا ہے؛ اس لیے عورتوں کا تبلیغی جماعت میں جانا پسندیدہ چیز نہیں ہے۔ اور اگر نامحرموں کے ساتھ سفر ہو تو کراہت بڑھ جائے گی۔ اور اگر دوسرے مفاسد کے اندیشہ کا لحاظ کیا جائے تو جماعت میں نہ جانا ہی بہتر و اولیٰ ہے۔ عن أسامة بن زید قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ما ترکت فتة أضر علی الرجال من النساء (مشکوٰة:268).

    (۲) عورتوں کو دینی مسائل اپنے شوہروں کے واسطے سے اہل علم (علماء) سے معلوم کرنا چاہیے یا فضائل اعمال بہشتی زیور وغیرہ کتابیں گھر پر پڑھنے سنانے کا معمول بنانا چاہیے اور کوشش کرنا چاہیے کہ گھر کا ماحول دینی ہو، شوہر نمازی ہو، بچے نمازی دین دار ہوں پاس پڑوس کے لوگ نمازی ہوں۔ گناہوں سے بچنے والے ہوں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند