Transactions & Dealings >> Inheritance & Will
Question ID: 179927Country: India
وارث کے حق میں وصیت کا سوال
Answer ID: 179927
Bismillah hir-Rahman nir-Rahim !
Fatwa:124-52T/sn=2/3/1442
(الف)اگر زید نے پہلی بیوی کے دونوں بیٹوں کو مکان ہبہ کردیا تھا، نیز ہر ایک بیٹے کو اس کے حصے پر قابض بنا کر خو د دستبردار بھی ہوگیا تھا تو صورت مسئولہ میں وہ دونوں بیٹے اس مکان کے مالک ہوگئے تھے ، وہ زید مرحوم کے ترکہ میں شمار نہ ہوں گے ،رہا دوسرا مکان تو سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مرتے دم تک زید کی ملکیت میں تھا ؛ لہذا یہ ان کا ترکہ بنے گا، اس میں پہلی بیوی کے بچوں سمیت اس کے دیگر تمام ورثا کا حق ہے ، زید(باپ )کی وصیت کردینے کی وجہ سے دوسری بیوی کی اولاد تنہا اس مکان کی حقدار نہ ہوگی الا یہ کہ پہلی بیوی کی اولاد اس پر راضی ہوں ؛ کیونکہ شریعت نے ورثا کے لیے میراث رکھی ہے ، وصیت نہیں؛ اسی لئے مورث کی وصیت وارث کے حق میں کالعدم ہوتی ہے ؛ ہاں اگر دیگر ورثا تنفیذِ وصیت پر راضی ہوں تو پھر حسب وصیت موصی لہ کو مل جائے گا ۔
عن عمرو بن دینار، أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: لا تجوز لوارث وصیة إلا أن یجیزہا الورثة> ^سنن سعید بن منصور 1/ 149،باب لا وصیة لوارث،رقم426)
(ولا لوارثہ وقاتلہ مباشرة) لا تسبیبا کما مر (إلا بإجازة ورثتہ) لقولہ - علیہ الصلاة والسلام - لا وصیة لوارث إلا أن یجیزہا الورثة یعنی عند وجود وارث آخر کما یفیدہ آخر الحدیث وسنحققہ (وہم کبار) عقلاء فلم تجز إجازة صغیر ومجنون وإجازة المریض کابتداء وصیة ولو أجاز البعض ورد البعض جاز علی المجیز بقدر حصتہ....... (قولہ جاز علی المجیز إلخ) بأن یقدر فی حق المجیز کأن کلہم أجازوا وفی حق غیرہ کأن کلہم لم یجیزوا وقدمنا بیانہ عن المقدسی․ (الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 10/ 346، کتاب الوصایا،مطبوعة: مکتبة زکریا، دیوبند)
Allah (Subhana Wa Ta'ala) knows Best
Darul Ifta,
Darul Uloom Deoband, India