• Miscellaneous >> Halal & Haram

    Question ID: 59256Country: India

    Title: براہ کرم، حدیث کے حوالے سے فوٹو گرافی کے سلسلے میں مفصل فتوی دیں۔

    Question: براہ کرم، حدیث کے حوالے سے فوٹو گرافی کے سلسلے میں مفصل فتوی دیں۔

    Answer ID: 59256

    Bismillah hir-Rahman nir-Rahim !

    Fatwa ID: 369-369/Sd=7/1436-U شریعت اسلام مین کسی جاندار کی تصویر کھینچنا اور بنانا خواہ ڈیجیٹل کیمرے کے ذریعے ہو یا دوسرے کسی قسم کے کیمرے کے ذریعے، بہرصورت ناجائز وحرام ہے۔ احادیث میں تصویر بنانے پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ اس مسئلے سے متعلق دارالعلوم دیوبند کا ایک مفصل ومدلل فتوی منسلک ہے۔ ملاحظہ فرمالیں۔ ------------------------------ بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب وباللہ التوفیق:حامدا ومصلیا ومسلما! شریعت ِاسلامیہ میں جاندار کی تصویر سازی اور تصویر بنانا، خواہ ڈیجیٹل کیمرے کے ذریعے ہو یا دوسرے کسی قسم کے کیمرو ں کے ذریعے، تصویر چاہے چھوٹی ہو یا بڑی، بہر صورت ناجائز اور حرام ہے، اس مسئلے میں احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم (۱)،افعالِ صحابہ اور عباراتِ اکابرِ امت  موجود ہیں۔ حاشیہ (۱) (۱) عن عبداللّہ بن مسعود قال:سمعت النبيَّ صلّی اللّہ علیہ وسلّم یقول:”إن أشد النّاس عذابا عنداللّہ المصورون“(صحیح البخاري:رقم:۵۹۵۰، باب بیان عذاب المصورین یوم القیامة)۔ وعن ابن عباس قال:سمعت رسول اللّہ صلّی اللّہ علیہ وسلّم یقول:کل مصوّر في النار… مشکاة المصابیح: ۳۸۵، ط: دار الکتاب دیوبند۔ إن رسول اللّہ صلّی اللّہ علیہ وسلّم قال:إن الذین یصنعون ہٰذہ الصور یعذبون یوم القیامة یقال لہم أحیوا ما خلقتم۔(صحیح البخاري:رقم:۵۹۵۱، باب بیان عذاب المصورین یوم القیامة) نیز آپ کی یہ تحقیق کہ ”اس جدید دور میں کیمروں میں فرق ہوگیا ہے کہ پرانے کیمروں میں ریل اور فلم ڈالی جاتی تھی، پھر فوٹو کھنچتا تھا، اس کے بعد اس کو دھوکر تصویر بنتی تھی؛ لیکن اب ڈیجیٹل کیمرے آگئے ہیں، جن میں فلم نہیں ہوتی ؛بلکہ یہ عکس کو الیکٹرونک طریقے سے جذب کرتے ہیں“۔ یہ تحقیق اور آپ کا یہ نظریہ اپنی جگہ پر ٹھیک ہے ؛ لیکن آپ کی اس تحقیق سے نفسِ مسئلہ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا؛کیوں کہ یہ بات مسلم ہے کہ کسی شئی کے حلال یا حرام ہونے میں اس کے ذرائع وآلات کا کوئی اعتبار نہیں، اگر کوئی چیز حرام ہے، تو اس کا وجود ہاتھوں سے ہوا ہو، یا سانچوں اور مشینوں کے ذریعے، اگر وہ حرام ہے تو اختلاف ِآلات کی بناپر اس میں کوئی فرق نہیں آتا، مثلاً: شراب چاہے دیسی مٹکوں میں بنائی جائے یا جدید آلات ومشینوں کے ذریعے ، بہر صورت اگر اس میں نشہ ہے تو حرام کہاجائے گا، اسی طرح اگر کوئی شخص کسی کو آلہٴ جارحہ سے قتل کرے، یا گولی مار کر قتل کرے، یا پھانسی پر لٹکا کر جان لے، یازہر کھلا کر، یا کرنٹ لگا کر، یا زہرکا انجیکشن دے کر مارے، ان سب صورتوں کو قتل ہی کہیں گے؛ اسی طرح اگر کوئی شخص کسی کنواری لڑکی سے زنا کرے یا اپنا مادہٴ منویہ بذریعہ ٹیوب اجنبیہ کے رحم میں داخل کرے،ہر صورت میں پیدا ہونے والا بچہ حرام ہوگا؛ لہٰذا تصویر سازی جو کہ حرام ہے، وہ کسی بھی ذریعے سے ہو حرام ہوگی اور جس طرح کاغذ پر اترنے کے بعد یہ تصویر حرام ہے، اسی طرح جس وقت اس کے اصل کو کیمرے کی ڈسک میں محفوظ کیا جارہا ہو تو عملاً اس کا حکم بھی تصویر محرم کا حکم ہوگا ،چاہے محفوظ ہونے والی شکل ابتداءً ذرات کی شکل میں ہی کیوں نہ ہو ۔ وفي التوضیح: قال أصحابنا وغیرہم: تصویر صورة الحیوان حرام أشد التحریم وہو من الکبائر وسواء صنعہ لما یمتہن أو لغیرہ فحرام بکل حال؛ لأن فیہ مضاہاة لخلق اللہ، وسواء کان في ثوب أو بساط أ و دینار أو درہم أو فلس أو إناء أو حائط ․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․ وبمعناہ قال جماعة العلماء مالک والثوري وأبو حنیفة وغیرہم رحمہم عمدة القاري شرح البخاري:۱۰/۳۰۹، باب عذاب المصورین یوم القیامة۔ (ط: دارالطباعة العامرة)۔)۔ وکذا في الفتاوی الہندیة :۵/۳۵۹۔وکذا في البدائع :۱/۱۱۶ وکذا في الدّر مع الرّد :۲/۴۰۹، مطلب: إذا تردد الحکم بین سنة وبدعة۔ وکذا ذکر العلامة النووي في شرحہ علی صحیح مسلم:۲/۱۹۹ نیز تصویر سازی کی حرمت کے متعلق کم وبیش چالیس حدیثیں آپ علیہ الصلوة و السلام سے مروی ہیں، اور تمام کی تمام مطلق تصویر کے متعلق ہیں (کسی بھی ذریعے سے تصویر تیار کی جائے )اس کے بر عکس تصویر کے جواز کی کوئی روایت نہیں ملتی،نیز حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کا ،صحابہ کرام  سے بڑھ کر کوئی شارح نہیں ہو سکتا، یہ حضرات آپ علیہ الصلوة و السلام کے حقیقی رمز شناس اور ہر قول وفعل کے عینی شاہد ہیں، ان حضرات نے بھی تصویر سے متعلق تمام احادیث سے یہی مفہوم اخذ کیا ہے کہ یہ ارشادات ہر قسم کی تصاویر سے متعلق ہیں اور ہمیشہ کے لیے ہیں۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نصاری کی دعوت یہ فرما کر رد کردی کہ تمہارے یہاں تصویر ہوتی ہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ا بو الہیاج اسدی کو بھیجا کہ شہر میں تمام تصاویر مٹادیں اور فرمایا کہ مجھے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مہم پر بھیجا تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ایک مکان میں تصویر دیکھ کر دروازے سے لوٹ آئے۔ (سب واقعات بخاری ومسلم میں مذکور ہیں ) حضراتِ اکابر کی تصریحات سے بھی یہی تائید ہوتی ہے کہ کسی بھی طریقے سے تصویر کھینچی جائے، وہ تصویر ہی کے حکم میں ہے اور اس پر تصویر ہی کے احکام مرتب ہوں گے ۔ چنانچہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی علیہ الرحمة عکس اور فوٹو کے درمیان فر ق کرتے ہوئے تحریرکرتے ہیں : ”سب سے بڑا فرق دونوں میں یہی ہے کہ آئینہ وغیرہ کا عکس پائیدار نہیں ہوتا اور فوٹو کا عکس مسالہ لگا کر قائم کرلیا جاتاہے ،پس وہ اسی وقت تک عکس ہے، جب تک اسے مسالے سے قائم نہ کیا جائے اور جب اس کو کسی طریقے سے قائم وپائیدار کرلیا جائے وہی تصویر بن جاتا ہے“۔(آلات جدیدہ کے شرعی احکام:۱۴۱-۱۴۲) دوسری جگہ مفتی اعظم مفتی محمد شفیع صاحب فرماتے ہیں: ”حاصل یہ ہے کہ عکس جب تک مسالہ وغیرہ کے ذریعے سے پائیدار نہ کر لیا جائے، اس وقت تک وہ عکس ہے اور جب اس کو کسی طریقے سے قائم وپائیدار کر لیا جائے تو وہی تصویر بن جاتا ہے اور عکس جب اپنی حد سے گزر کر تصویر کی صورت اختیار کرے گا، خواہ وہ مسالے کے ذریعے ہو یا خطوط ونقوش کے ذریعے اور خواہ یہ فوٹو کے شیشے پر ہو یا آئینہ وغیرہ شفاف چیزو ں پر، اس کے سارے احکام وہی ہوں گے جو تصویر کے متعلق ہیں “۔ (آلات جدیدہ کے شرعی احکام :۱۴۲) اسی طرح مفتی رشید احمد صاحب ایک سوال کاجواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ”اس کو عکس کہنا بھی صحیح نہیں؛ اس لیے کہ عکس اصل کے تابع ہوتا ہے او ریہاں اصل کی موت کے بعد بھی اس کی تصویر باقی رہتی ہے “۔ (احسن الفتاوی:۹/۸۹) دوسری جگہ مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ”تصویر اور عکس دو بالکل متضاد چیزیں ہیں، تصویر کسی چیز کا پائیدار اور محفوظ نقش ہوتا ہے ،عکس ناپائیدار اور وقتی نقش ہوتا ہے، اصل کے غائب ہوتے ہی اس کا عکس بھی غائب ہوجاتا ہے، ویڈیو کے فیتے میں تصویر محفوظ ہوتی ہے،جب چاہیں جتنی بار چاہیں ٹی وی کی اسکرین پر اس کا نظارہ کرلیں اور یہ تصویر تابع اصل نہیں؛ بلکہ اس سے بالکل لاتعلق اور بے نیاز ہے، کتنے لوگ ہیں جو مر کھپ گئے، دنیا میں ان کا نام ونشان نہیں؛ مگر ان کی متحرک تصاویر ویڈیو کیسٹ میں محفوظ ہیں، ایسی تصویر کو کو ئی بھی پاگل عکس نہیں کہتا، صرف اتنی سی بات کو لے کر کہ ویڈیو کے فیتے میں ہمیں تصویر نظر نہیں آتی، تصویر کے وجود کا انکار کردینا کھلا مغالطہ ہے“۔ (احسن الفتاوی:۸/۳۰۲) حضرت مولانا محمد یوسف صاحب لدھیانوی  کا ایک فتوی ”تصویر اور سی ڈی کے شرعی احکا م“ میں ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا گیا ہے : ”ٹی وی اور ویڈیو فلم کا کیمرہ جو تصویر یں لیتا ہے وہ اگرچہ غیر مرئی ہیں؛ لیکن تصویر بہر حال محفوظ ہے اور اس کو ٹی وی پر دیکھا اور دکھایا جاتاہے ،اس کو تصویر کے حکم سے خارج نہیں کیا جا سکتا، زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہاتھ سے تصویر بنانے کے فرسودہ نظام کے بجائے سائنسی ترقی نے تصویر سازی کا ایک دقیق طریقہ ایجاد کر لیا ہے؛ لیکن جب شارع نے تصویر کو حرام قرار دیا ہے تو تصویر سازی کا خواہ کیسا ہی طریقہ ایجاد کرلیا جائے، تصویر تو حرام ہی رہے گی“۔ (تصویر اور سی ڈی کے شرعی احکام :ص:۹۴، نعیمیہ) قدیم زمانے میں تصویر ہاتھ سے بنتی تھی، پھر کیمرے کی ایجاد نے اس قدیم طریقے میں ترقی کی اور تصویر ہاتھ کے بجائے مشین سے بننے لگی،اب اس عمل میں نئی نئی سائنسی ایجادات نے مزید ترقی کی اور جدت پیدا کی اور جامد وساکن تصویر کی طرح اب چلتی پھرتی، دوڑتی بھاگتی تصویر کو محفوظ کیا جانے لگا،یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ اس کو قرار وبقاء نہیں ہے ،اگر اس کو بقاء نہ ہوتی تو ٹی وی اسکرین پر نظر کیسے آتی ۔ بہر حال ان اقتباسات سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ کسی جان دار کا مطلق عکس محفوظ کرنا، خواہ وہ کسی بھی طریقے پر ہو اگر اس میں استقلال واستقرار پیدا ہوجائے کہ جب چاہیں اس کو دیکھ سکیں تو یہ تصویر سازی میں داخل ہوگا، اور اس پر تصویر سازی کے احکامات مرتب ہوں گے ۔ نیز حضرات اکابر میں جن کے سامنے بھی حفظ عکس کی یہ جدید صورت اور ترقی یافتہ شکل سامنے آئی، انہوں نے بھی عکس کی مذکورہ حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے، اس کے تصویر ہونے کا ہی حکم دیا، اسی طرح اگر کوئی چیز منافع ومفاسد پر مشتمل ہوتی ہے تو اس میں غالب ہی کا اعتبار ہوتاہے؛ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے شراب اور جوے کے متعلق ارشاد فرمایا: ”واِثْمُہُمَا اَکْبَرُ مِن نَفْعِہِمَا“(سورة البقرة) اور فقہ کا بھی قاعدہ ہے کہ : درء المفاسد أولیٰ من جلب المصالح، فإذا تعارضت مفسدة ومصلحة قدم دفع المفسدة غالباً(الأشباہ والنظائر) ٹھیک ہے کہ بعض موقعوں پر فوٹو کی شدید ضرورت ہوتی ہے اور ضرورتِ شدید کے موقع پر فقہاء کرام ومفتیان عظام نے قاعدہ ”الضّرورات تبیح المحظورات“کے پیش نظر فوٹو کی اجازت بھی دی ہے ؛ لیکن چوں کہ کیمروں کا استعمال غالباً وعامةً غلط اور ناجائز کاموں کے لیے ہوتا ہے ؛ اس لیے صرف کیمروں کی مرمت کرنا کراہت سے خالی نہیں ہے اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کو بے غبار اور پاک صاف نہیں کہا جا سکتا ؛اس لیے آپ کو چاہیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے ارشاد : ”یِآاِیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُلُوا مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا“پرعمل پیرا ہوتے ہوئے حلال اور پاک وصاف کاروبار کی تلاش جاری رکھیں، جب تک جائز وحلال کاروبار نہ مل سکے، تب تک بادلِ ناخواستہ اسی کام کو کرتے رہنے کی گنجائش ہے، ساتھ ساتھ توبہ واستغفار کرتے رہیں اور حلال کاروبار میسر آجانے کے بعد اس کام سے بالکلیہ کنارہ کشی اختیار کرلیں۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ الاحقر: زین الاسلام قاسمی# الٰہ آبادی نائب مفتی ۳/رجب المرجب۳۲ھ الجواب صحیح :حبیب الرحمن عفااللہ عنہ،محمود حسن بلند شہری غفرلہ،وقار علی غفرلہ ،فخر الاسلام -------------------------------------------

    Allah (Subhana Wa Ta'ala) knows Best

    Darul Ifta,

    Darul Uloom Deoband, India