Miscellaneous >> Halal & Haram
Question ID: 57989Country: India
Answer ID: 57989
Bismillah hir-Rahman nir-Rahim !
Fatwa ID: 669-687/L=7/1436-U شریعت مطہرہ نے ورزش کے قصد سے کھیل کو جائز قرار دیا ہے بشرطیکہ اس کھیل کی ممانعت شریعت میں وارد نہ ہوئی ہو اور نہ اس کا ضرر نفع پر غالب ہو، نیز اس کو کسب معاش کا ذریعہ نہ بنایا گیا ہو، اسی طرح وہ کھیل ا للہ کے ذکر سے غفلت اور فرائض کی ادائیگی سے بے پرواہی کا سبب نہ بنتا ہو، اور کرکٹ امپائرنگ کرنے سے ورزش نہیں ہوتی، نیز موجودہ دور میں کرکٹ کا ضرر نفع سے کہیں زیادہ بڑھا ہوا ہے جو محتاج بیان نہیں، واضح رہے کہ آپ نے اس کو کسب معاش کا ذریعہ بھی بنالیا ہے گویا کہ آپ کلب کے اجیر ہیں جب کہ معاضی وملاہی (کھیل کود) پر اجارہ جائز نہیں ہے، اس لیے آپ اور کسی جائز ذریعہ معاش کی بھرپور کوشش کیجیے اور اس کے ملنے پر اس کو ترک کردیجیے، بھلائی اسی میں ہے۔ وفي الدر: وأما السباق بلا جعل فیحوز في کل شيء کما یأتي، قال الشامي: قولہ ”فیحوز في کل شيء“ أي مما یعلّم الفروسیة وبعین علی الجہاد بلا قصد التلہّي اھ (۹/۵۷۹، ط: زکریا) وفیہگ لا تصح الإجارة․․․ لأجل المعاصي مثل الغناء والنوح والملاہي․ (۹/۷۵، ط: زکریا) وفي حاشیة الشلبي علی التبیین: ولا تجوز الإجارة علی شیء من الغناء والنوح والمزامیر والطبل وشیء من اللھو ولا علی الحداء وقرائة الشعر ولا غیرہ ولا أجر في ذلک، وھذا کلہ قول أبي حنیفة وأبي یوسف ومحمد؛ لأنہ معصیة ولھو ولعب والاستئجار علی المعاصي واللعب لا یجوز؛ لأنہ منھي عنہ․
Allah (Subhana Wa Ta'ala) knows Best
Darul Ifta,
Darul Uloom Deoband, India