• Miscellaneous >> Halal & Haram

    Question ID: 187882Country: India

    Title:

    بینک کی ملازمت سے حاصل شدہ پیسوں سے کاروبار کرنا

    Question: سوال: میں بینک میں کام کرتا ہوں اور ہمیشہ اس شک میں رہتا ہوں کہ میں جو آمدنی کماتا ہوں وہ حرام ہے یا حلال؟ اس لیے میں ایک کاروبار شروع کرنا چاہتا ہوں لیکن میرے پاس اس کے علاوہ پیسے کا کوئی اور ذریعہ نہیں ہے ، کیونکہ مجھے والدین سے کوئی جائیداد/پیسہ وراثت میں نہیں ملا، تو کیا اسلام کے تحت کاروبار شروع کرنا قابل قبول ہوگا؟ یہ رقم میں نے محنت سے کمائی ہے اور اپنی تنخواہ کے علاوہ کوئی سود یا کوئی اور چیز جمع نہیں کی ہے۔

    Answer ID: 187882

    Bismillah hir-Rahman nir-Rahim !

    Fatwa: 5349=07-44

     بینک میں ایسی ملازمت جس میں سودی حساب کتاب لکھنا پڑے یا سودی دستاویزات کی تائید وتوثیق کرنا پڑے یا کوئی انتظامی عہدہ سنبھالنا پڑے‏، شرعاً جائز نہیں ہے‏، ناجائز کام کے بقدر حاصل شدہ آمدنی بھی حلال نہیں ہے؛ اس لیے آپ کا تردد بجا ہے اور آپ کا کوئی الگ کاروبار کرنے کا ارادہ بھی بہت اچھا ہے۔ اگر واقعتاً آپ کے پاس کاروبار شروع کرنے کے لیے مباح آمدنی نہیں ہے تو مجبوری میں اس رقم سے یہ نیت کرتے ہوئے کاروبار شروع کرنے کی گنجائش ہے کہ بعد میں مال حرام سے اتنی رقم غربا پر صدقہ کردیں گے۔ باقی بہتر بہرحال یہی ہے کہ اس رقم کے بجائے کسی سے قرض حسنہ لے کر کاروبار شروع کریں۔

     ما وجب التصدق به لكاسب الحرام، واحتاج إليه لنفقته ونفقة عياله، يجوز صرفه إلى نفسه، فإن كان فقيرًا، لا يجب عليه التصدق بمثله، وإن كان غنيا، ولم يكن المال الحلال كافيًا لسد حاجته، يسوغ للمفتي بعد النظر في أحواله أن يفتيه بجواز الاقتراض مما عنده من المال الحرام بشرط أن يلزم نفسه تسديد هذا القرض إلى الفقراء عن المال الحلال كلّما تيسر له ذلك، فيجب عليه أن يتصدق بمثله" (فقه البيوع 2/1055، مطبوعه، دار المعارف)

     وذكر صاحب «الاختيار في شرح المختار» أنه وإن وجب التصدق بالفضل، ولكن إن احتاج إليه، بأن لم يكن في ملكه ما يسد به حاجة نفقته ونفقة عياله، فصرفه في حاجته بينة أنه يتصدق بمثله فيما بعد، جاز له ذلك. (فقه البيوع 2/1145، مطبوعه، دار المعارف)

    Allah (Subhana Wa Ta'ala) knows Best

    Darul Ifta,

    Darul Uloom Deoband, India